اوباما انتظامیہ نے بے دخلی کا سامنا کرنے والے تین لاکھ غیر قانونی تارکینِ وطن کے کیسز کا از سرِ نو جائزہ لینے کا اعلان کیا ہے تاکہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ اُنھیں امریکہ میں رہنے کی اجازت دی جا سکتی ہے یا نہیں۔
داخلی سلامتی کی امریکی وزیر جینٹ نپولیٹانو نے قانون سازوں کے ایک گروپ کے نام تحریر کردہ خط میں کہا ہے کہ حکام ہر کیس کا الگ الگ جائزہ لیں گے۔
نپولیٹانو کے بقول جائزے میں ایسے افراد کی نشاندہی کی جائے گی جو قانون کی "معمولی نوعیت" کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں یا طویل عرصے سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ اس اقدام کا مقصد جرائم پیشہ افراد اور عوام کے لیے خطرناک افراد کو ملک سے بے دخل کرنے پہ توجہ مرکوز کرنا ہے۔
امریکی انتظامیہ کی اس نئی پالیسی کا ڈیموکریٹ سینیٹر ڈک ڈربن نے خیر مقدم کیا ہے جنھوں نے بچپن میں امریکہ آنے والے غیر قانونی تارکینِ وطن کو بتدریج امریکی شہریت دینے کے حوالے سے ایک قانون تجویز کر رکھا ہے۔
تاہم ریپبلیکن قانون سازوں کا کہنا ہے کہ اوباما انتظامیہ کانگریس کو نظر انداز کر رہی ہے اور ان کے بقول مذکورہ پالیسی امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم تارکینِ وطن کوعام معافی دینے کے مترادف ہے۔
2009ء میں اقتدار میں آنے کے بعد سے لاکھوں غیر قانونی تارکینِ وطن کو ان کے آبائی وطن بھجوانے کی کوششوں اور امیگریشن اصلاحات سے متعلق قانون سازی کرنے پر کانگریس کو رضامند کرنے میں ناکامی کے باعث امریکی انتظامیہ کو کئی حلقوں سے تنقید کا سامنا ہے۔