امریکہ میں کرونا وائرس کے مصدقہ کیسز 10 لاکھ سے بڑھ گئے ہیں جب کہ مہلک وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 57 ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بعض ریاستیں کاروباری سرگرمیاں بحال کرنے کے لیے پر تول رہی ہیں۔
امریکہ کی جانز ہاپکنز یونیورسٹی کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں کرونا کیسز کی تعداد 30 لاکھ سے زائد ہو گئی ہے۔ جن میں امریکہ 10 لاکھ سے زائد کیسز کے ساتھ سر فہرست ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق اپریل کے مہینے میں ہر روز اوسطً دو ہزار امریکی شہری وائرس کا شکار ہو کر ہلاک ہوئے۔
البتہ، بعض امریکی طبی ماہرین کا خیال ہے کہ ٹیسٹنگ اور کیس رپورٹ نہ ہونے کے باعث متاثر اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
امریکی ریاستوں کو وارننگ
طبی ماہرین اُن امریکی ریاستوں کو بھی خبردار کر رہے ہیں، جو وائرس کے پھیلاؤ کے باوجود معیشت کا پہیہ دوبارہ چلانے پر غور کر رہی ہیں۔ ان ریاستوں میں جارجیا، آئیوا، ٹیکساس اور ٹینیسی شامل ہیں۔
طبی ماہرین نے مذکورہ ریاستوں کے گورنرز کو خبردار کیا ہے کہ قبل از وقت سماجی پابندیاں ختم کرنے سے وائرس کی نئی لہر حملہ آور ہو سکتی ہے۔ لہذٰا احتیاط سے کام لیا جائے۔
وائٹ ہاؤس بھی ریاستوں کو سماجی پابندیاں ہٹانے سے متعلق سفارشات کے معاملے پر تذبذب کا شکار ہے۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ امریکی معیشت کو بحال کیا جائے۔ صدر نے لاک ڈاؤن ختم کرنے کے لیے مختلف ریاستوں میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی بھی حمایت کی تھی۔
امریکہ میں وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر انتھونی فاؤچی کا کہنا ہے کہ اگر عجلت میں سماجی پابندیاں ہٹائی گئیں تو کیسز بڑھ سکتے ہیں۔
البتہ، اُن کے بقول اگر سماجی پابندیاں ہٹانے اور معیشت کی بحالی کے وقت احتیاط سے کام لیا جائے تو نئے کیسز کم ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر فاؤچی کا کہنا تھا کہ "اگر ریاستیں یہ صلاحیت رکھتی ہیں کہ جن افراد کو وائرس ہے، ان کی نشاندہی کر لیں اور ان سے منسلک افراد کا بھی سراغ لگا لیں، تو پھر نئے کیسز بھی کم ہو سکتے ہیں۔"
صدر ٹرمپ کی چین پر ایک بار پھر تنقید
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر چین پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی غیر ذمہ داری کے باعث آج دنیا کے 184 ممالک 'جہنم' سے گزر رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ "یہ یقین کرنا مشکل ہے۔ اس وائرس کو شروع سے ہی روکا جا سکتا تھا۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا اب 184 ممالک جہنم کے دور سے گزر رہے ہیں۔"
خیال رہے کہ کرونا وائرس کا آغاز چین کے شہر ووہان سے جنوری کے آغاز میں ہوا تھا۔ امریکہ اور بعض دیگر ممالک چین پر یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ اس نے وائرس کے حوالے سے حقائق کو چھپایا اور بروقت دنیا کو اس سے آگاہ نہیں کیا۔
صدر ٹرمپ اس حوالے سے تحقیقات اور چین پر ہرجانے کا دعویٰ کرنے کا بھی عندیہ دے چکے ہیں۔
خیال رہے کہ برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی نے ممکنہ کرونا ویکسین کی انسانوں پر آزمائش شروع کر دی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ویکیسن کے بندروں پر آزمائشی تجربے کے اچھے نتائج آئے ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اگر یہ ویکسین کار آمد ہوئی تو ستمبر تک اس کی لاکھوں 'ڈوزز' دسیباب ہوں گی۔