امریکہ نے شمالی کوریا کی جانب سے مذاکرات پر آمادگی کے اظہار پر محتاط ردِ عمل اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیانگ یانگ کو اپنا جوہری پروگرام روکنا ہوگا۔
اتوار کی شب وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ ہکابی سینڈرز نے ایک بیان میں کہا کہ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ شمالی کوریا کی جانب سے مذاکرات پر آمادگی کے پیغام کو جوہری پروگرام سے دستبرداری کی جانب پہلا قدم سمجھا جاسکتا ہے یا نہیں۔
بیان میں ترجمان نے کہا ہے کہ شمالی کوریا کی پیشکش کے باوجود امریکہ اور باقی دنیا کو پیانگ یانگ پر یہ واضح کرنے کی اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں کہ اس کے جوہری اور میزائل پروگرام کا کوئی مستقبل نہیں۔
سارہ ہکابی کے بقول امریکہ، جنوبی کوریا اور بین الاقوامی برادری اس بات پر متفق ہیں کہ شمالی کوریا کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کا لازمی نتیجہ خطے سے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کی صورت میں نکلنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک یہ ہدف حاصل نہیں ہوجاتا شمالی کوریا پر ہر ممکن دباؤ ڈالنے کی مہم جاری رہنی چاہیے۔ ترجمان نے کہا کہ صدر ٹرمپ واضح کرچکے ہیں کہ اگر شمالی کوریا اپنے جوہری پروگرام سے دستبردار ہوجائے تو اس کے لیے ایک روشن مستقبل کی جانب بڑھنے کا راستہ موجود ہے۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان نے یہ بیان جنوبی کوریا سے جاری کیا ہے جہاں وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صاحبزادی ایوانکا ٹرمپ کے ہمراہ سرمائی اولمپکس کی اتوار کو ہونے والی اختتامی تقریب میں شریک تھیں۔
اختتامی تقریب میں شرکت کے لیے آنے والے شمالی کوریا کے وفد کے سربراہ اور شمالی کوریا کی نیشنل انٹیلی جنس کے سربراہ جنرل کِم یونگ چول نے جنوبی کوریا کے صدر مون جائے ان کے ساتھ اتوار کو ہونے والی ملاقات میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی کا عندیہ دیا تھا۔
جنوبی کوریا کے صدارتی محل کے ترجمان کے مطابق ملاقات میں جنرل کم یونگ نے کہا تھا کہ شمالی و جنوبی کوریا کے تعلقات کے ساتھ ساتھ واشنگٹن اور پیانگ یانگ کے تعلقات میں بھی بہتری آنے چاہیے اور اس مقصد کے لیے ان کا ملک امریکہ سے بات چیت کے لیے تیار ہے۔
اولمپکس کی اختتامی تقریب شمالی کوریا اور امریکہ کے وفود نے اسٹیڈیم کے اس حصے میں ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھی تھی جو اہم ترین مہمان شخصیات کے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔
امریکی وفد میں جزیرہ نما کوریا میں موجود امریکی اور بین الاقوامی افواج کے کمانڈر امریکی جنرل ونسنٹ بروکس بھی شامل تھے جنہوں نے اپنی وردی میں اختتامی تقریب میں شرکت کی۔
تاہم امریکی حکام کے مطابق اس موقع پر دونوں وفود کے ارکان کے درمیان کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔
تاحال یہ واضح نہیں کہ اتوار کو سامنے آنے والے ان بیانات سے امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان تعلقات میں کوئی بہتری آئے گی اور دونوں ملکوں کے درمیان کوئی رابطے ہوں گے یا نہیں۔
شمالی کوریا بارہا واضح کرچکا ہے کہ وہ اپنے جوہری اور میزائل پروگرام پر کوئی بات چیت نہیں کرے گا۔