امریکی محکمہٴخارجہ نے سعودی عرب کی ایک مسجد پر مبینہ خود کش حملے کی مذمت کی ہے، جس میں درجنوں افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔
خاتون ترجمان، میری ہارف نے یہ بات جمعے کی شام محکمہٴخارجہ کی اخباری بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہی۔
ترجمان نے کہا کہ ’یہ اطلاعات ملی ہیں کہ داعش نے اِن حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے‘۔ تاہم، ترجمان نے اِن خبروں کی تصدیق نہیں کی۔
میری ہارف نے کہا کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ اِس وقت سعودی حکام حملے کی تفتیش کر رہے ہیں‘۔
ادھر، شائع ہونے والی خبروں کے مطابق، حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم 'داعش' نے قبول کی ہے، جو مشرقِ وسطیٰ میں سرگرم اس تنظیم کی جانب سے مملکت کی حدود میں پہلی بڑی مبینہ کارروائی بتائی جاتی ہے۔
ایک اور معاملے کے بارے میں سوال پر، ترجمان نے کہا کہ ’سعودی عرب نے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط کیے ہوئے ہیں؛ اور سعودی عرب نے کبھی جوہری ہتھیار حاصل نہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہوا ہے‘۔
بقول ترجمان، ’یہ ایک ایسا معاملہ ہے جسے ہم بہت اہمیت دیتے ہیں کہ وہ عملاً اس عزم پر قائم رہنے کا مظاہرہ کرتے رہیں‘۔
ترجمان نے کہا کہ ’جیسا کہ آپ کے علم میں ہے، ہم اُن کے سے باقاعدگی کے ساتھ مشاورت کرتے رہتے ہیں، اسی طرح، جیسا کہ ہم ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیںٕ؛ اور یہ کہ یہ ایسا معاملہ ہے جس پر ہم اُن کے ساتھ بات چیت جاری رکھیں گے۔‘
جمعرات کو جیوفری گولڈبرگ کو انٹرویو دیتے ہوئے، صدر براک اوباما نے کہا تھا کہ ایسا کوئی عندیہ نہیں کہ سعودی عرب جوہری ملک بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ ترجمان سے پوچھا گیا کہ اِس پر محکمہٴخارجہ کا کیا کہنا ہے۔
ایک اور ضمنی سوال پر کہ ’پاکستانی اہل کاروں کی سعودی حکام سے حالیہ ملاقاتیں اور بات چیت پر کسی تشویش کا اظہار سامنے نہیں آیا، جس کے لیے خیال کیا جاتا ہے کہ یہ جوہری ملک بننے سے متعلق بات تھی‘۔
ترجمان نے کہا کہ ’مجھے نہیں معلوم۔ میرا خیال ہے کہ گفتگو اِسی موضوع پر ہوئی، اور میں نہیں سمجھتی کہ ہمیں اس پر کوئی تشویش ہے‘۔
اس سوال پر کہ داعش کی جانب سے اہل تشیع کی مسجد پر حملہ شیعہ سنی تناؤ میں اضافے کا سبب تو نہیں بنے گا، ترجمان نے کہا کہ ’ہمیں انتظار کرنا ہوگا تاکہ اس ضمن میں کچھ مزید حقائق سامنے آئیں، جن سے اس بات کی تصدیق ہو کہ اس میں واقعی داعش ملوث تھی‘۔
لیکن، ترجمان نے کہا کہ، ’اس کا ذمہ دار کوئی بھی ہو، بیشک یہ ایک انتہائی خراب بات ہے‘۔
ادھر، سعودی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے شائع ہونے والی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ خودکش حملہ مشرقی ساحلی صوبے القطیف کے ایک گاؤں کی مسجد میں نمازِ جمعہ کے بعد ہوا۔ اطلاعات کے مطابق حملے کے وقت امام علی نامی مسجد میں 150 سے زائد نمازی موجود تھے۔
سعودی عرب کی وزارتِ داخلہ نے حملے کو دہشت گرد کارروائی قرار دیتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ خودکش حملہ آور نے بارودی مواد اپنے کپڑوں کے نیچے کمر سے باندھ رکھا تھا، جِس میں اس نے نماز کے دوران دھماکہ کیا۔وزارت کے ترجمان نے کہا ہے کہ سعودی سکیورٹی فورسز اس دہشت گرد حملے کے ذمہ داران کو ہر صورت کیفرِ کردار تک پہنچائیں گے۔