چین کے شہر ووہان میں گزشتہ سال کے آخری روز رپورٹ ہونے والے 'نویل کرونا' نامی وائرس کے اثرات اب پوری دُنیا میں پھیل گئے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے وائرس سے صحتِ عامہ کو درپیش خطرات کے باعث عالمی ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔
دُنیا کے مختلف ممالک کرونا وائرس سے متاثرہ چین کے شہر سے اپنے شہریوں کے انخلا کے لیے کوشاں ہیں۔
ووہان میں پھنسے 195 امریکی باشندوں کو لے کر ایک خصوصی طیارہ بدھ کو جنوبی کیلی فورنیا کے مارچ ریزرو ایئر بیس پر اُترا تھا۔ اس جہاز پر سوار مسافروں میں 27 سالہ فٹ بالر جیرڈ ایونز بھی شامل تھے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے گفتگو میں ایونز نے حالات کی سنگینی اور ووہان شہر میں وائرس کے پھیلنے کے بعد لوگوں میں پیدا ہونے والے خوف کا ذکر کیا۔
ایونز یوں تو اپنے کھیل کے دوران ہیلمٹ اور شولڈر پیڈ پہننے کے عادی ہیں۔ لیکن، گزشتہ کئی روز سے اُنہوں نے چہرے پر ماسک اور ہاتھوں پر دستانے پہن رکھے ہیں۔
اُنہوں نے بتایا کہ جہاں زندگی اور موت کا معاملہ ہو تو یہ ایک بالکل الگ تجربہ ہوتا ہے۔
بدھ کو امریکہ پہنچنے والے 195 افراد کو تفصیلی طبی معائنے کے بعد ہی گھروں کو جانے کی اجازت دی جائے گی۔ حکام کے بقول، "اس سارے عمل میں دو ہفتوں سے زائد کا عرصہ بھی لگ سکتا ہے۔"
ایونز چند سال قبل چائنیز فٹ بال لیگ میں کھیلنے کے لیے ووہان شہر منتقل ہوئے تھے۔ وہ مقامی فٹ بال کلب کے لیے بطور 'کوارٹر فل بیک' کھیلتے ہیں۔
اُنہوں نے بتایا کہ ووہان ایک کروڑ دس لاکھ نفوس پر مشتمل ایک خوبصورت شہر ہے۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا اور لوگ نئے چاند کی سالانہ تعطیلات کے لیے پرجوش تھے۔ لیکن، چند روز کے اندر ہی سب کچھ افراتفری میں بدل گیا۔
ذرائع ابلاغ میں کرونا وائرس نامی بیماری کی خبریں آنے لگیں اور پھر کیسز کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ "میں نے دیکھا کہ شہر کے میڈیکل اسٹورز میں لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ کوئی وائرس سے بچاؤ کے لیے ادویات اور ماسکز خرید رہا تھا تو بعض افراد جراثیم کش اسپرے خریدتے نظر آئے۔ انگریزی بولنے اور سمجھنے والے میرے ایک چینی دوست نے مجھے اس خبر سے آگاہ کیا۔"
ایونز نے بتایا کہ "میں نے سب سے پہلے نوڈلز، چاول، پانی اور دیگر ضروری اشیائے خور و نوش جمع کر لیں۔ سوچا کہ یہ ایک ہفتے تک زندہ رہنے کے لیے کافی ہوں گی۔"
بعدازاں حکومت نے شہر کے کاروباری مراکز، ٹرانسپورٹ بشمول ٹرین، بس، ٹیکسی سروس یہاں تک کہ نجی گاڑیوں کو بھی سڑکوں پر لانے پر پابندی عائد کر دی۔ فوج کے دستوں کے علاوہ اکا دکا لوگ ہی سڑکوں پر نظر آتے تھے۔ اُن کے بقول، لوگ عملاً اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے تھے۔
جیرڈ ایونز نے اس صورتِ حال کی منظر کشی کرتے ہوئے مزید بتایا کہ "سڑکوں پر ہر طرف سناٹے سے یہ گمان ہوتا تھا کہ یہ کوئی آسیب زدہ علاقہ ہے۔"
ایونز نے کہا، "میں شروع میں بہت ڈر گیا تھا۔ جو کچھ میں دیکھ رہا تھا، ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ پورا نیو یارک شہر خالی ہو جائے؟"
ایونز لگ بھگ 11 روز تک ووہان میں اپنے گھر پر ہی محصور رہے۔ اس کے بعد اُنہیں علم ہوا کہ امریکی سفارت خانے نے شہریوں کے انخلا کے لیے انتظامات کیے ہیں۔
ان کے بقول، "میں نے سنا کے ایک چارٹرڈ طیارہ آ رہا ہے جو ووہان میں پھنسے ایک ہزار امریکی شہریوں میں سے کچھ کو لے جائے گا۔ لیکن، اُس کے لیے پہلی شرط وقت پر ایئرپورٹ پہنچنا تھا۔"
جیرڈ ایونز نے کہا کہ ایک جاننے والے نے اُنہیں ایئرپورٹ تک پہنچایا۔ اس دوران امریکی سفارت خانے نے چینی حکام کو اُن کی گاڑی کی نمبر پلیٹ سے آگاہ کر دیا تھا۔ ایونز کا ووہان سے انخلا کے لیے تیار 195 امریکیوں میں 171 واں نمبر تھا۔
اُنہوں نے بتایا کہ سب اتنے خوفزدہ تھے کہ دورانِ پرواز بھی سب نے ماسک پہن رکھے تھے۔ ایک جگہ سب کی اسکریننگ ہوئی اور بعدازاں پرواز امریکہ کے لیے روانہ ہوئی۔ کیلی فورنیا پہنچنے پر سب نے خوشی سے نعرے لگائے اور تالیاں بجائیں۔
بعد ازاں ہمیں بتایا گیا کہ سب کا تفصیلی طبی معائنہ ضروری ہے، جس کے لیے چند روز رُکنا بھی پڑ سکتا ہے۔ جہاز پر سوار 195 افراد میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
ایئر بیس میں بچوں کو کھیلنے کے لیے اسکوٹر، فٹ بال اور دیگر کھلونے دیے گئے ہیں۔ لیکن، شام ڈھلتے ہی سب اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے سے بھی خوف آتا ہے۔ ہم میل جول میں احتیاط برت رہے ہیں۔
ایونز کہتے ہیں کہ میں لوگوں سے میل جول رکھنے والا شخص ہوں۔ لیکن مجھے علم ہے کہ ملاقاتوں سے گریز میں نہ صرف میری بلکہ دُوسروں کی صحت بھی منسلک ہے۔ لہذٰا، ہمیں اسے برداشت کرنا پڑے گا۔
ایونز کے بقول، حکام کا کہنا ہے کہ جو شخص پہلے کلیئر ہو جائے گا، وہ گھر جا سکتا ہے۔ ایک شخص نے زبردستی یہاں سے نکلنے کی بھی کوشش کی لیکن حکام نے اُسے روک دیا۔
امریکی پبلک ہیلتھ ایجنسی کے ایک عہدے دار جوز اربالو کا کہنا ہے کہ ایئربیس پر موجود 195 افراد میں سے کسی میں کرونا وائرس کے شواہد نہیں ملے۔ لیکن مکمل تسلی کر لینے تک اُنہیں یہاں رکھا جائے گا۔ ان افراد کے کھانے پینے اور رہائش کی ضروریات پوری کی جا رہی ہیں، جب کہ بچوں کا بھی بھرپور خیال رکھا جا رہا ہے۔
ایونز کا خاندان اس وقت سوئٹزرلینڈ میں مقیم ہے، جہاں ایونز مقامی فٹ بال کلب کی طرف سے کھیلنے کا معاہدہ کر چکے ہیں۔
چین کے علاوہ کرونا وائرس کے کیسز امریکہ سمیت لگ بھگ 20 ملکوں میں رپورٹ ہو چکے ہیں۔ امریکہ نے جمعرات کو وائرس کے ایک انسان سے دوسرے میں منتقلی کے پہلے کیس کی بھی تصدیق کی تھی۔
حکام کے مطابق، ووہان میں موجود اپنے شوہر سے ملاقات کے بعد آنے والی ایک 60 سالہ خاتون میں اس وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ خاتون کا تعلق شکاگو سے ہے جنہیں طبی امداد دی جا رہی ہے۔