وزیرِ اعظم پاکستان کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ پاکستان میں چار لوگ ہیں جنہیں نگرانی میں رکھا گیا تھا لیکن ان چاروں کی صحت بہتر ہو رہی ہے اور ان کے مزید ٹیسٹ کیے جارہے ہیں۔ ابتدائی ٹیسٹ کے مطابق وہ کرونا وائرس سے متاثر نہیں ہیں۔
اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ چین میں چار پاکستانی طالب علموں کے حوالے سے میری چین میں پاکستانی سفیر نغمانہ ہاشمی سے بات ہوئی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ان چاروں کی صحت بہتر ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شکر ہے کہ ابھی اس نمبر میں اضافہ نہیں ہوا۔ چینی حکومت کی طرف سے پاکستانی طالب علموں کا سب سے بہترین علاج کیا جا رہا ہے۔ ان مریضوں میں جیسے ہی اس مرض کی علامتیں سامنے آئیں ان کا علاج شروع کردیا گیا ہے۔
ظفر مرزا کا کہنا تھا کہ اس بیماری میں 97 فی صد متاثرہ لوگ مکمل طور پر صحت یاب ہو جاتے ہیں تاہم لوگ اس بیماری سے خوفزدہ ہیں۔ یہ بیماری پھیلتی بہت تیزی سے ہے لیکن اس کا علاج بھی ہو جاتا ہے۔
چار طالب علموں کے اہل خانہ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ان کی شناخت مخفی رکھی جا رہی ہے اور ان چاروں کا اپنے اہل خانہ کی طرح خیال رکھا جا رہا ہے۔ ان طالب علموں کی خواہش پر ان کے حوالے سے کوئی تفصیل سامنے نہیں لا رہے۔
ووہان میں موجود پاکستانی طلبہ کو وطن واپس لانے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت دو باتوں کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کریں گے۔ پہلا نکتہ یہ کہ کیا وہاں موجود لوگوں کا خیال رکھا جا رہا ہے یا نہیں۔ ہم اس بارے میں کام کر رہے ہیں اور تمام افراد جو سفارت خانے کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں ان کا مکمل خیال رکھا جا رہا ہے۔ دوسرا یہ کہ پبلک ہیلتھ کے لیے کیا ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے پاکستانی عوام کا بھی خیال رکھنا ہے جس کے مطابق ہم نے فیصلہ کرنا ہے۔ لہذا ہم تمام معاملات کو دیکھ کر مناسب وقت پر مناسب فیصلہ کریں گے۔
ظفر مرزا کا مزید کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت کے ڈاکٹر ٹیڈروس کا کہنا ہے کہ ڈبلیو ایچ او اس بات کا حامی نہیں ہے کہ چین سے لوگوں کو نکالا جائے کیونکہ اگر وہاں سے لوگوں کو نکالا جائے گا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ ہم اس بات کا سبب بن جائیں گے کہ یہ بیماری وہاں بھی پہنچ جائے گی جہاں اب تک یہ موجود نہیں ہے۔ یہ بیماری جنگل میں آگ کی طرح پھیل سکتی ہے۔ یہ ہماری قومی ذمہ داری ہے کہ ہم اس کے پھیلاؤ کا سبب نہ بنیں۔
امریکہ کا اپنے لوگوں کو چین سے نکالنے کے معاملے ان کا کہنا تھا کہ وہاں صرف امریکی سفارت کار جو چین کے شہر ووہان میں موجود تھے۔ ان لوگوں کو ویانا کنونشن کے تحت نکالا گیا ہے۔ سفارت کاروں کے لیے میزبان ملک پر ذمہ داری ہے کہ اگر دوسری حکومت کہے تو انہیں واپس بھجوائے تو ان کو بھیج دیا جاتا ہے لیکن ابھی بھی وہاں بہت سے امریکی شہری موجود ہیں۔
پاکستان میں اس مرض کی شناخت کے حوالے سے ظفر مرزا نے کہا کہ ہوائی اڈوں پر تھرمل اسکینرز موجود ہیں جب کہ مزید بھی منگوائے جا رہے ہیں لیکن صرف تھرمل اسکینر ہی نہیں ہمیں مزید اقدامات بھی کرنے ہوں گے۔ اس مقصد کے لیے ہم نے جامع منصوبہ بندی کر لی ہے۔ صوبوں کے ساتھ بھی رابطہ کیا جا رہا ہے۔ ہماری پوری کوشش ہے کہ اس بیماری کو پاکستان سے دور رکھا جائے۔
فلائٹ آپریشن کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس صورت حال میں بین الاقوامی ہیلتھ ریگولیشنز کے مطابق اب تک فلائٹس کو بند نہیں کیا گیا تاہم بعض ممالک میں سلو ڈاؤن ہوگیا ہے۔ پابندی نہ ہونے کے باوجود کچھ تعطل آیا ہے جو اس بیماری کے پھیلاؤ کے حوالے سے بہتر ہے۔ چین میں نئے سال کی تقریبات کی وجہ سے بہت کم لوگ ملک سے باہر جاتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت فلائٹ آپریشنز پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان ہفتہ وار 41 پروازیں ہیں۔ ان فلائٹس کو جاری رکھا جائے گا۔ ہمارے پاس حکمت عملی موجود ہے کہ جب مسافر آئیں گے تو ان کو دیکھیں گے۔
پاکستان میں مقیم چینی شہریوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اگر چینی شہری ماضی قریب میں چین یا ووہان نہیں گئے تو ان کی اسکریننگ کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک اندازے کے مطابق 28 سے 30 ہزار پاکستانی شہری چین میں موجود ہیں۔ان میں سے طلبہ اور کاروباری افراد شامل ہیں۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ دنیا کے 194 ممالک میں سے صرف 5 ممالک کے پاس اس بیماری کے حوالے سے لیبارٹریز موجود ہیں۔ ہمارے پاس اس کی تشخیص کرنی والی کچھ کٹس موجود ہیں جبکہ مزید جلد آجائیں گی۔
خیال رہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں خوف پایا جا رہا ہے اور اس وقت تک 7800 سے زائد افراد متاثر ہوچکے ہیں جبکہ 170 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
پاکستان میں اب تک چار مشتبہ مریض ہیں جب کہ چین کے شہر ووہان میں موجود چار پاکستانی طلبہ میں اس مرض کی تصدیق ہوئی ہے۔