امریکہ نے چین پر الزام لگایا کہ وہ اپنی المونیم کی صنعت کے فروغ کے لیے غیر قانونی طور پر عالمی مارکیٹ میں المونیم کم نرخوں پر فراہم کر رہا ہے جس سے امریکی صنعت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
جمعرات کے روز اوباما انتظامیہ نے، جن کے اقتدار کا محض ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے اور 20 جنوری ڈونلڈ ٹرمپ صدرات کا حلف اٹھا لیں گے، بیجنگ پر الزام لگایا کہ وہ المونیم کے اپنے صنعت کاروں کو ارزاں قیمتوں پر خام مال کی خرید کے لیے سستے قرضے اور غیر قانونی مالی اعانتیں فراہم کر رہا ہے تاکہ عالمی مارکیٹ میں اس دھات کی قیمتیں کم رکھی جا سکیں۔
صدر براک اوباما نے عالمی تجارتی تنظیم میں چین کے خلاف اپنی شکایت میں کہا ہے کہ چین اپنی المونیم کی صنعت کو غیر منصفانہ فوائد مہیا کر رہا ہے۔ اس طرح کی پالیسیاں امریکی صنعت کاروں کے لیے نقصان دہ ہیں اور اس کے نتیجے میں عالمی سطح پر المونیم ، فولاد اور دوسرے شعبوں میں اس کا ڈھیر لگ رہا ہے۔
امریکہ کو اس وقت فائدہ ہوتا ہے جب ہمارے کارکنوں اور کاروباروں کو عالمی معیشت میں منصفانہ مسابقت کا موقع ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب دوسرے ملک تجارت کے قواعد توڑتے ہیں اور چور راستے اختیار کرتے ہیں تو میری انتظامیہ تجارتی قوانین کے ٹھوس اطلاق کے لیے کھڑی ہو جاتی ہے۔
امریکی تجارتی نمائندے مائیکل فرومن نے کہا ہے کہ واشنگٹن وہ تمام 16 تجارتی تنازع جیت چکا ہے جو وہ چین کے خلاف سامنے لایا تھا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رخصت ہونے والی اوباما انتظامیہ امریکی کارکنوں کے ساتھ مخلص ہے۔
تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ مسٹر ٹرمپ اور ان کے تجارتی عہدے دار چین کے ساتھ تعطل میں پڑے ہوئے تازہ ترین تنازعات اور دوسرے جھگڑوں کے سلسلے میں کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔
بدھ کے روز ایک نیوز کانفرنس میں ٹرمپ نے اس سے منسلک ایک مسئلے کی بنیاد پر امریکی تجارتی معاہدوں پر اپنی تنقید جاری رکھی جیسا کہ انہوں نے اپنی طویل صدارتی انتخابی مہم کے دوران کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ چین اقتصادی لحاظ سے ہم پر مکمل سبقت حاصل کر چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے تجارتی معاہدے تباہی کا مظہر ہیں۔ ہم ہرسال اربوں ڈالر کا نقصان اٹھا رہے ہیں ۔ چین، جاپان اور میکسیکو کے ساتھ ہمیں تجارت میں اربوں ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ ہم اچھے معاہدے نہیں کرتے۔