اقوام متحدہ میں امریکی سفیر، نِکی ہیلی نے اتوار کے روز کہا ہے کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اُنھیں روس کے خلاف سخت بیان دینے سے نہیں روکا، ایسے میں جب وہ کانگریس اور قانونی تفتیش کے معاملے پر امریکی ذرائع ابلاغ کے کچھ اداروں کی رپورٹنگ سے مطمئن نہیں۔ یہ چھان بین اس بات پر ہو رہی ہے آیا روسی اہل کاروں نے ٹرمپ کی انتخابی جیت میں کسی طور پر کوئی مدد کی تھی۔
ہیلی نے 'اے بی سی نیوز' کو بتایا کہ ''آج تک صدر نے کبھی مجھے ٹیلی فون نہیں کیا یہ کہتے ہوئے کہ روس کے خلاف بیان نہ دو۔۔ اور ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ مجھے کیا کہنا ہے۔ میں روس کے خلاف بیان دیتی رہتی ہوں''۔
ہیلی نے کہا کہ روس نے2014ء میں یوکرین کے جزیرہ کرائیما پر قبضہ جمایا، جو کہ غلط تھا، ساتھ ہی مشرقی یوکرین میں 'کیئو' کی افواج کے خلاف روس نواز لڑاکوں کی لڑائی جھڑپیں جاری ہیں، جس میں روس ملوث ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ''جب روس کوئی غلط کام کرتا ہے تو مجھے اُسے غلط کہنے میں دیر نہیں لگتی۔ صدر نے مجھ سے کبھی کوئی اختلاف نہیں کیا کہ روس کا احتساب کیوں کیا جا رہا ہے''۔
جب اُن سے یہ سوال کیا گیا آیا ٹرمپ کو بھی روس کے خلاف بات کرنی چاہیئے، ہیلی نے جواب دیا، ''کیوں نہیں۔ بالکل۔ وہ بہت سے معاملات پر نگاہ رکھتے ہیں۔ لیکن، وہ مجھے روس کے خلاف بات کرنے سے نہیں روکتے''۔
ہیلی نے کہا کہ ''امریکہ روس کی مذمت جاری رکھے ہوئے ہے، اور اُس سے کرائیمیا پر فوری طور پر قبضہ خالی کرنے کا مطالبہ کرتا ہے''۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ ''کرائیمیا کے معاملے پر روس کے خلاف عائد کردہ تعزیرات جاری رہیں گی، جب تک کہ روس جزیرے کا کنٹرول یوکرین کو واپس نہیں کر دیتا''۔
امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی ہدایات پر، ماسکو نے گذشتہ سال کے صدارتی انتخابات میں مداخلت کی تھی، جس کا مقصد ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار اور سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کو شکست دینے کی کوشش تھا۔
اب، امریکہ کا چوٹی کا تفتیشی ادارہ، 'فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن' اس بات کی چھان بین کر رہا ہے آیا انتخابات میں ٹرمپ کی کامیابی کے امکانات کو بڑھانے کے لیے روسی اہل کاروں نے مجرمانہ مداخلت کی۔ مزید یہ کہ سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان میں انٹیلی جنس پر قائمہ کمیٹیاں انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت کے معاملے پر اپنی اپنی تفتیش کر رہی ہیں۔