کراچی میں منگل کی صبح اسکول اور ایک فلائی اوور کے نیچے ہونے والے دستی بم حملے شہر میں دو دہشت گردوں کی سزائے موت پر عمل درآمد کے فوری رد عمل کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق اگرچہ یہ ردعمل اس حوالے سے خطرناک ثابت نہیں ہوا کہ اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن مستقبل میں اس کے مزید سخت ہونے کے خدشے کو رد نہیں کیا جاسکتا ہے۔
دستی بم حملے کا نشانہ بننے والے گلشن اقبال بلاک سات میں واقع اسکول سے منسلک ایک ٹرانسپورٹر شکیل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حملہ صبح تقریباً پونے سات بجے ہوا۔ اس وقت تک بچے اسکول نہیں پہنچے تھے
ان کے مطابق حملے میں دو نامعلوم موٹر سائیکل سوار ملوث تھے جو وہاں دستی بم اور بڑی تعداد میں پمفلٹ پھینک کر فرار ہوگئے۔ پمفلٹس میں واضح طور پر لکھاہے کہ اگر پولیس نے ہمارے ساتھیوں کو جعلی مقابلے میں ہلاک کرنا نہ چھوڑا اور حکومت نے سزائے موت پر عمل درآمد بند نہ کیا تو اسکولوں پر دوبارہ بھی حملے ہوسکتے ہیں۔
جس مقام پر حملہ ہوا وہ رہائشی علاقہ ہے اور کچھ ہی فاصلے سے ڈیڑھ درجن سے زائد اسکول واقع ہیں۔ بیشتر اسکول انگریزی میڈیم اور کیمبرج سسٹم کے تحت آتے ہیں۔
واقعے کی خبر ملتے ہی بچوں کے والدین بڑی تعداد میں اسکول پہنچ گئے۔ ان میں سے کچھ والدین کے پاس پمفلٹس بھی موجود تھے جو باقاعدہ کسی پریس سے چھپوائے گئے تھے۔ بیشتر والدین اور اسکول کے عملے کا بھی یہی گمان تھا کہ حملہ دہشت گردوں کو عدالتوں سے ملنے والی سزائے موت کارد عمل ہے۔
دوسری جانب کچھ والدین کا یہ بھی کہنا تھا کہ کراچی میں دستی بم حملوں کے پیچھے بھتہ مافیا کا ہاتھ ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے وہ پمفلٹ کے ذریعے دھیان بٹاکر اس کی آڑ میں اسکول انتظامیہ سے بھتہ طلب کررہے ہوں۔ لیکن اس حوالے سے اسکول انتظامیہ کوئی موقف دینے سے گریز کر رہی ہے۔
اسی طرح کا ایک دستی بم حملہ سائٹ میں بھی ہوا۔ حبیب بینک چورنگی پر واقع پل کے نیچے کھڑی رینجرز کی موبائل وین پر نامعلوم افراد نے دستی بم پھینکا۔ ڈپٹی کمشنر ویسٹ نے حملے میں دو راہ گیروں کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ بم پہلے سے اس جگہ نصب تھا جہاں عموماً رینجرز کی موبائل وین کھڑی ہوتی ہے لیکن دھماکے کے وقت موبائل وین وہاں موجود نہیں تھی۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ کا کہنا ہے کہ دھماکے میں استعمال ہونے والا مواد تقریباً600گرام تھا جسے ڈھائی کلو وزنی بلاک کے نیچے نصب کیا گیا تھا۔