مشہور مصنوعات بنانے والی کثیر القومی کمپنی 'یونی لیور' جلد کو گورا کرنے والی کریم 'فیئر اینڈ لولی' سے لفظ 'فیئر' حذف کر رہی ہے۔
اس بات کا اعلان کمپنی کے صدر سنی جین نے نسل پرستی کے خلاف جاری عالمی تحریک 'بلیک لائیوز میٹرز' کے تناظر میں جمعرات کو کیا۔
سنی جین کے بقول، "ہم سمجھتے ہیں کہ صاف و شفاف، گورا یا گوری رنگت اور چمک دار جلد جیسے الفاظ خوبصورتی کا اظہار ہیں لیکن یہ درست نہیں ہیں۔ البتہ ہم اسے جلد کی دیکھ بھال یا جلد کی نگہداشت سے تعبیر کر سکتے ہیں۔"
جلد کو گورا کرنے والی کریموں کی تشہیری مہم میں اکثر ایک ہی چہرے کو دو مرتبہ دکھا کر یہ موازنہ کیا جاتا ہے کہ مذکورہ کریم کے استعمال سے اگر آپ کی جلد سانولی ہے تو استعمال کے بعد یہ گوری ہو جائے گی۔
یونی لیور کی جانب سے لفظ 'فیئر' کو حذف کرنے کے فیصلے کا صارفین نے سوشل میڈیا پر خیر مقدم کیا ہے۔
بعض صارفین نے اس فیصلے کی تعریف کی ہے تو کچھ کا کہنا ہے کہ کمپنی نے فیصلہ کرنے میں بہت دیر کر دی ہے۔
جنوبی ایشیا جلد کو گورا کرنے والی کاسمیٹکس مصنوعات کی نہایت وسیع مارکیٹ ہے۔ لیکن نسل پرستی کے خلاف امریکہ اور یورپ میں نسل پرستی کے خلاف آوازیں اٹھنے کے بعد جنوبی ایشیا میں بھی ان مصنوعات کی تشہیر پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق یونی لیور کی 'فیئر اینڈ لولی' کریم جنوبی ایشائی مارکیٹ پر حاوی ہے حالاں کہ 'پراکٹر اینڈ گیمبل' اور 'ایل اوریل' نامی کمپنیاں بھی اسی طرح کی مصنوعات تیار کرتی ہیں۔
'فیئر اینڈ لولی' کے برانڈ نیم میں تبدیلی کے فیصلے کو غیر معمولی اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔
'یونی لیور انڈیا' کا جس کا مارکیٹ شیئر 67 فی صد ہے، کہنا ہے کہ وہ 2019 میں ہی اس طرح کی مارکیٹنگ یا تشہیری مہم سے الگ ہو گئی تھی جس میں خواتین کی مختلف رنگت دکھائی جاتی ہے۔
یاد رہے کہ بھارت میں چہرہ گورا کرنے والی مصنوعات کی تشہیر کے لیے بڑے پیمانے پر بالی وڈ اسٹارز کا سہارا لیا جاتا ہے۔ متعدد فن کار اور ماڈلز باقاعدہ 'فیئر اینڈ لولی' کے برانڈ ایمبیسڈر رہے ہیں اور اس کام کے لیے ان پر بھاری سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔
یونی لیور کی طرح 'جانسن اینڈ جانسن' بھی جلد کو گورا کرنے والی مصنوعات بنانے والی کثیر الملکی کمپنی ہے۔ اس کی جانب سے بھی رواں ماہ کے آغاز میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ وہ ایشیا اور مشرقِ وسطی میں جلد کو گورا کرنے والی کریموں کی فروخت بند کر دے گی۔
دوسری جانب سوفٹ ڈرنکس اور متعدد غذائی اشیا تیار کرنے والی کمپنی 'پیپسی' نے بھی اپنی کئی مصنوعات کے نام اور برانڈ امیج کو تبدیل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
دو ہزار چودہ میں 'مس امریکہ' منتخب ہونے والی پہلی بھارتی نژاد امریکی خاتون نینا دیوولاری نے 'رائٹرز' سے گفتگو کے دوران 'فیئر اینڈ لولی' کے نام کی تبدیلی کے فیصلے کو فتح سے تعیبر کیا۔ اُن کے بقول یہ ایک بڑے مقصد کی جانب پہلا قدم ہے۔
نینا دیوولاری کا کہنا تھا کہ اگرچہ یونی لیور کی جانب سے 'صاف'، 'سفید' اور 'چمک دار' جلد جیسے الفاظ کو حذف کرنا اور برانڈ نیم تبدیل کرنا ہی رنگ و نسل پرستی کے خاتمے کے لیے کافی نہیں ہے لیکن یہ ایک نئے سلسلے کی شروعات ہے۔
نینا نے گزشتہ منگل کو 'یونی لیور' کے سی ای او ایلن جوپ کو ایک خط بھی ارسال کیا تھا جس میں انہوں نے ایسی مصنوعات کی پیداوار بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
'ہندوستان یونی لیور' جو 'یونی لیورز انڈیا یونٹ' کے تحت صرف بھارت کے لیے ایسی مصنوعات تیار کرتی ہے، کا کہنا ہے کہ نام کی تبدیلی باقاعدہ منظوری سے مشروط ہے۔
ساتھ ہی کمپنی نے یہ بتانے سے بھی انکار کر دیا ہے کہ 'فیئر اینڈ لولی' کا نیا نام کیا ہو گا۔
پاکستان میں بھی رنگ گورا کرنے والی کریموں پر بحث
پاکستان میں بھی رنگ گورا کرنے والی کریموں کے استعمال اور تشہیر پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر زیرِ بحث رہی ہے۔ اس بحث میں بہت سے پاکستانی فن کاروں نے حصہ لیا تھا اور کئی معروف فن کاراؤں نے کہا تھا کہ انہوں نے کبھی بھی رنگ گورا کرنے والی کریموں کی تشہیر نہیں کی اور نہ ہی وہ اس کے حق میں ہیں۔
اس حوالے سے ماہرہ خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ وہ شروع ہی سے جلد کو گورا کرنے والی مصنوعات کے حق میں نہیں اور نہ ہی کبھی انہوں نے ان کی توثیق کی ہے۔
ماہرہ خان کی ٹوئٹ کے جواب میں گلوکارہ مومنہ مستحسن نے کہا تھا کہ انہوں نے بھی ہمیشہ ایسی مصنوعات کے استعمال کی نفی کی ہے۔
ان کے بقول آپ کی جلد کا آپ کے خوبصورت ہونے سے کوئی واسطہ نہیں۔ اگر ہم سب ذمے داری کے ساتھ رنگ گورا کرنے والی مصنوعات کی توثیق سے انکار کرتے ہیں تو یہ مارکیٹ میں تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے۔ ہم اس رجحان کو تبدیل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
اداکارہ عائشہ عمر نے اس حوالے سے کی گئی ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ وہ پچھلے 12 سال سے جلد گورا کرنے والی مصنوعات کو ثوثیق سے انکار کرتی آئی ہیں۔ انہیں متعدد مرتبہ ایسی مصنوعات کی تشہیر کی پیش کش ہو چکی ہے لیکن ان کے خلاف میرا مؤقف ہمیشہ سے سخت رہا ہے۔