وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ’برابری، باہمی احترام اور شفافیت کی بنیاد پر‘ ہی بہتر باہمی تعلقات قائم ہو سکتے ہیں، اور یہ کہ تنازعات کا حل ’بات چیت کے ذریعے ہی تلاش کیا جائے‘۔
مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیتے ہوئے، اُنھوں نے جمعے کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 69 ویں اجلاس سے خطاب میں، کہا کہ جنوبی ایشیا میں امن کے حصول کے لیے کشمیر کا حل لازم ہے، جس کے لیے ’ٹھوس کوششیں‘ کی جائیں۔
پاک بھارت خارجہ سکریٹری اجلاس کی منسوخی کو ’افسوس ناک‘ قرار دیتے ہوئے، اُن کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک اچھا موقع تھا، جسے گنوا دیا گیا‘۔
اُنھوں نے کہا کہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری لانے کے ’کئی بہترین مواقع‘ سامنے آتے رہے، جنھیں، بقول اُن کے، ’بدقسمتی سے ضائع کیا جاتا رہا‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’اسٹیٹس کو‘ (جوں کے توں حالات) کا انداز روا رکھنا مسائل کے حل میں معاون نہیں ہوسکتا۔
ماضی میں عالمی ادارے کی منظور کردہ قرار دادوں کا ذکر کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ: ’کشمیری عوام اقوام متحدہ کی طرف سے چھ عشرے قبل استصوابِ رائے کے بارے میں کیے جانے والے وعدے کی تکمیل کے اب تک منتطر ہیں‘۔
بقول اُن کے، عالمی ادارے کی یہ ذمہ دری ہے کہ کشمیر کا ’بنیادی مسئلہ‘ حل کرے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان مذاکرات کے ذریعے مسئلہٴکشمیر کے حل کے لیے تیار ہے، اور یہ کہ تنازعات کے پُرامن حل میں پاکستان عالمی ادارے کا ساتھ دے گا۔
نواز شریف نے کہا کہ ’پاکستان دہشت گردی کی شدید مذمت کرتا ہے۔ اور دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کے سلسلے میں پُر عزم ہے۔‘
اس ضمن میں، اُنھوں نے کہا کہ ’اس وقت شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں اور اُن کے ٹھکانوں کے خلاف بھرپور فوجی کارروائی جاری ہے، جس کی پوری پاکستانی قوم تائید کرتی ہے‘۔
تاہم، پاک افغان سرحدی علاقے پر ہونے والی تشدد کی کارروائیوں کے سلسلے میں، اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان کو ’مثبت عملی اقدام کرنا ہوں گے‘۔
اُنھوں نے داخلی طور پر نقل مکانی پر مجبور ہونے والے لاکھوں افراد کا ذکر کیا جن کی امداد کے لیے قابل قدر کوششیں کی جانی چاہئیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اصلاحات کا حامی ہے، جب کہ وہ کونسل میں مستقل نشستوں کو بڑھانے کے حق میں نہیں ہے۔
افغانستان کے بارے میں، اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کا حریف بننے کے بجائے، افغانستان کو اسٹریٹجک تعاون کا مرکز بننا چاہیئے۔
شراکت اقتدار کے معاہدے کا ذکر کرتے ہوئے، پاکستان کے وزیر اعظم نے اس امید کا اظہار کیا کہ اس کے نتیجے میں دونوں رہنما اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ مضبوط ہو کر ابھریں گے، اور افغان عوام کے حالات بہتر ہوں گے، جب کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کی توقع ہے۔ بقول اُن کے، دونوں ممالک کے مفادات یکساں ہیں۔
غزہ کے معاملے پر، اُنھوں نے ’فلسطینیوں کے قتل عام‘ کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور ’کثیر انسانی جانوں‘ کے ضائع ہونے پر تعزیت اور دکھ کا اظہار کیا۔
نواز شریف نے مطالبہ کیا کہ غزہ کا ’بلاکیڈ‘ ختم کیا جائے اور فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ ساتھ ہی، اُنھوں نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی قراردادوں کے تحت، فلسطین کا مستقل و دیرپہ حل تلاش کرے۔
شام اور عراق میں تشدد پر منبی انتہا پسندی کے نیٹ ورک اور دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ اس کے باعث ہزاروں بے گناہ لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ اُنھوں نے دہشت گردی کے انسداد کی کوششوں کو مؤثر طور پر مکمل کرنے پر زور دیا۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے عزم کے ساتھ کام کرتا رہے گا۔
نواز شریف نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں دنیا کی معیشتیں تباہ ہورہی ہیں۔ اس سلسلے، اُنھوں نے کہا کہ پاکستان میں حال ہی میں آنے والے سیلاب کے نتیجےمیں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔
جوہری ہتھیاروں پر مؤثر نظرداری کے بارے میں، اُن کا کہنا تھا کہ عالمی برادری پاکستان کے ’سخت ضابطوں اور اعلیٰ معیار کی معترف ہے‘۔
نواز شریف نے کہہا کہ حکومت پاکستان کی طرف سے ملک میں تعلیم، صحت اور زیریں ڈھانچے کی سہولیات بڑھانے کے لیے ٹھوس اقدام کر رہی ہے۔
اُنھوں نے عالمی ادارے کی طرف سے غربت کے خاتمے اور صحت عامہ کے فروغ سے سلسلے میں معاونت فراہم کرنے کی کوششں کو سراہا۔