رسائی کے لنکس

بلدیاتی انتخابات میں ناکامی: 'تحریک انصاف کارکنوں کے مزاج کو سمجھنے میں ناکام رہی'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی ناکامی کے بعد ملکی سیاست میں ایک نئی ہلچل پائی جاتی ہے۔

حکومتی رہنما سیاسی گڑھ سمجھے جانے والے صوبے میں شکست کی وجہ پارٹی کے اندرونی اختلافات اور امیدواروں کے غلط انتخاب کو قرار دے رہے ہیں۔

اب تک کے غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق خیبر پختونخوا کے 17 اضلاع کی 64 تحصیلوں میں کونسل میئرز کے لیے ہونے والے انتخابات میں اکثر مقامات پر تحریک انصاف کو شکست کا سامنا ہے۔

مبصرین سمجھتے ہیں کہ صوبے میں آٹھ سال کی حکومت کے باوجود بلدیاتی انتخابات میں واضح شکست تحریک انصاف کے لیے آئندہ عام انتخابات میں خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے۔

تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی حکمرانی میں اچھی کارکردگی کا نہ ہونا اور حکومتی رہنماؤں کا کارکنوں سے عدم رابطہ شکست کی بنیادی وجہ ہیں۔

تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ بلدیاتی، کینٹونمنٹ اور ضمنی انتخابات میں تواتر سے ناکامی یہ ثابت کرتی ہے کہ تحریک انصاف کو اپنی کارکردگی میں بہتری کے لیے مختلف سوچ اپنانا ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ 2018 کے عام انتخابات کے بعد سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے تمام ضمنی انتخابات میں حکومتی جماعت کو 12 میں سے 11 نشستوں پر شکست کا سامنا رہا اور اب صوبے کے بلدیاتی انتخابات نے حکومتی کارکردگی کے دعووں کی کلی کھول کر رکھ دی ہے۔

یاد رہے کہ خیبرپختونخوا کے 35 اضلاع میں سے 17 میں اتوار کو ہونے والے انتخابات میں جے یو آئی (ف) 64 میں سے 19 تحصیلوں میں برتری حاصل کر کے سب سے آگے ہے۔

چار میں سے تین اہم شہروں پشاور، بنوں اور کوہاٹ میں جے یو آئی (ف) کے میئر کے امیدوار بھی آگے ہیں جب کہ مردان میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کو برتری حاصل ہے۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں غلطیوں کا اعتراف کیا ہے۔ ان کے بقول امیدواروں کا غلط انتخاب شکست کی وجہ بنا لیکن وہ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے سمیت ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کے لیے حکمت عملی کو خود دیکھیں گے۔

سلیم بخاری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا میں مسلسل آٹھ سال حکمرانی کے باوجود بلدیاتی انتخابات کا یہ نتیجہ تحریک انصاف کے لیے لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے کیوں کہ ان کے بقول یہ ان اضلاع کا نتیجہ ہے جہاں تحریک انصاف سمجھتی تھی کہ وہ خاصی مقبول ہے۔

صحافی محمود جان بابر کہتے ہیں کہ تحریک انصاف اپنے کارکنوں کے مزاج کو سمجھنے میں ناکام رہی اور یہی اندازے لگائے جاتے رہے کہ شاید 2018 کے انتخابات کا جنون برقرار رہے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں نہ تو وزیرِ اعظم عمران خان کی تقاریر اور شخصیت کا سحر تھا اور نہ ہی امیدوار کارکنوں کے قریب تھے جس کی وجہ سے وہ 'سلیپنگ موڈ' میں چلے گئے تھے۔

'انتخابی نتائج افغانستان کے حالات کا نتیجہ ہوسکتا ہے'

تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سرحدی صوبے میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے بلدیاتی انتخاب میں کامیاب ہونے کو محض اتفاق قرار نہیں دیا جاسکتا۔

صحافی و تجزیہ کار سبوخ سید کہتے ہیں کہ شہری علاقوں سے جے یو آئی کے امیدواروں کا کامیاب ہونا یقیناً حیران کن ہے جو کہ صوبے سے ملحقہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے اثرات کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے بعد ہونے والے عام انتخابات میں بھی خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں مذہبی جماعتوں نے کامیابی حاصل کی تھی۔

تاہم سلیم بخاری کا کہتے ہیں جے یو آئی (ف) کا صوبے کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آنا مولانا فضل الرحمٰن کی حکومت مخالف تحریک کی وجہ سے ہے۔

محمود جان بابر کا خیال ہے کہ جے یو آئی نے انتخابات کو مذہبی نہیں بلکہ سیاسی بنیاد پر لڑا جس کے لیے اس نے حکومتی امیدواروں سمیت دیگر جماعتوں کے ساتھ مقامی سطح پر ایڈجسمنٹ کی اور یہی کامیابی کی اہم وجہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ اور پنجاب کے بعد خیبر پختونخوا میں انتخابات کے نتائج ملکی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ مخالف سوچ کو مزید تقویت دے رہے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز نے تحریک انصاف کی ناکامی پر تنقید کی ہے۔ انہوں نے میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا کہ جب بری کارکردگی کے انبار لگائے ہوں گے تو تحریک انصاف کا کوئی ٹکٹ لینا والا نہیں ہو گا۔

XS
SM
MD
LG