رسائی کے لنکس

حکومت کی آئینی مدت مکمل ہونے کے قریب لیکن الیکشن سے متعلق بے یقینی کیوں؟


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

پاکستان کی موجودہ قومی اسمبلی کی آئینی مدت مکمل ہونے کے قریب ہے لیکن آئندہ انتخابات کی تاریخ کے بارے میں ابھی تک غیر یقینی کی فضا برقرار ہے۔ اس کے ساتھ ہی موجودہ اسمبلیوں کی مدت میں اضافے اورآئندہ کی نگراں حکومت کو طول دینے کی قیاس آرائیاں بھی جاری ہیں۔

بعض سیاسی جماعتیں انتخابات سے قبل انتخابی اصلاحات پر زور دے رہی ہیں اور اس ضمن میں پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحات کمیٹی سیاسی رہنماؤں سے تجاویز لے رہی ہے۔ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف کی نمائندگی انتخابی اصلاحات کمیٹی میں موجود ہے تاہم پی ٹی آئی کے کسی رکن نے تاحال اس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کی ہے۔

عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان نگران حکومت کے قیام کے بعد الیکشن کمیشن کو کرنا ہے تاہم خیبرپختونخوا اور پنجاب اسمبلیوں کے انتخابات میں بار بار تاخیر کے بعد عام انتخابات کے حوالے سے بھی خدشات جنم لے رہے ہیں۔

ان خدشات اور قیاس آرائیوں کے خاتمے کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف نے جمعرات کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ آئندہ ماہ حکومتی ذمے داریاں نگراں حکومت کے حوالے کردی جائیں گی۔لیکن اس کے باوجود یہ تبصرے جاری ہیں کہ آیا موجودہ اتحادی حکومت نے اگست کے وسط میں حکومت چھوڑنے کا باضابطہ فیصلہ کر لیا ہے۔

اس سے قبل حکومت کی بڑی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی نے آٹھ اگست کو اسمبلیاں تحلیل کرکے اکتوبر میں عام انتخابات کرانے کی تجویز دی تھی۔

وزیر اعظم نے اگست میں نگراں حکومت کو ذمے داریاں سپرد کرنے کا بیان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کے درمیان دبئی میں ہونے والی ملاقات اور بعد ازاں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے رواں ہفتے ہونے والی ملاقات کے بعد دیا ہے۔

آئین کے مطابق اگر موجودہ اسمبلی اپنی مدت مکمل کرتی ہے تو الیکن کمیشن کو 60 روز میں انتخابات کرانا ہوں گے تاہم اگر اسمبلی اپنی آئینی مدت سے ایک روز قبل بھی تحلیل کردی جاتی ہے تو انتخابات کے لیے مدت 60 روز سے بڑھ کر 90 روز ہوجائے گی۔

'حکومت اسمبلی کی مدت میں توسیع کا ارادہ نہیں رکھتی'

تجزیہ نگار مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ حکومت اسمبلی کی مدت میں توسیع کا ارادہ نہیں رکھتی۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ اسمبلی اپنی مدت مکمل ہونے سے چند روز قبل تحلیل کردی جائے تاکہ انتخابات کروانے کے لیے 60 کے بجائے 90 روز کا وقت مل جائے۔

مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں کہ انتخابات کے قریب آتے ہیں یہ قیاس آرائیاں جنم لینے لگتی ہیں کہ نگران حکومت کی مدت کو طول دیا جائے گا اور اب بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔تاہم ان کا خیال ہے ابھی تک کے حقائق اور بیانات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ نگران حکومت کو طول نہیں دیا جائے گا اور الیکشن وقت پر ہوں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والا معاہدہ 9 ماہ کا ہے جس کے بعد نئے معاہدے کی ضرورت ہوگی اور ایسی صورتِ حال میں محفوط راستہ یہی ہوگا کہ نگران حکومت کو طول نہ دیا جائے اور انتخابات وقت پر کرائے جائیں۔

پاکستان سے متعلق اسرائیل کا بیان عمران خان سے کیوں جوڑا جا رہا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:19 0:00

گزشتہ روز عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کا تین ارب ڈالرز قرض پروگرام منظور کیا پاکستان کو اس پروگرام کے تحت ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی پہلی قسط مل گئی ہے۔

الیکشن پر سوالات

صحافی عارفہ نور کہتی ہیں کہ یہ قیاس آرئیاں تو ختم ہوگئی ہیں کہ حکومت پارلیمنٹ کی مدت میں اضافہ نہیں کرنے جارہی تاہم ان کے نزدیک انتخابات وقت پر ہوں گے یا نہیں اس حوالے سے اب بھی سوالات موجود ہیں۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وہ یہ نہیں کہتیں کہ انتخابات نہیں ہوں گے لیکن تین ماہ کی مدت کے دوران ہوں گے یا نہیں؟ اس بارے میں بدستور قیاس آرائیاں موجود ہیں۔

ان کے مطابق حکومتی رہنماؤں کے ایسے بیانات کی وجہ سے بھی ابہام پیدا ہوا ہے جن میں وہ بار بار اصرار کرتے ہیں کہ انتخابات اکتوبر نہیں نومبر میں ہوں گے۔

ان کے نزدیک وزیرِ اعظم اور دیگر وزرا کا بار بار یہ کہنا کہ انتخابات کی تاریخ کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے، اس سے بھی ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ انتخابات کے مدت میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

ان کے بقول، "انتخابات کے انعقاد سے متعلق بے یقینی کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کی تحلیل کے باوجود تین ماہ کے اندر انتخابات نہیں ہوئے اور دو صوبوں میں اب بھی نگراں حکومت آئین میں دی گئی تین ماہ کی مدت سے زائد عرصے سے قائم ہے۔"

عارفہ نور نے کہا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی مثال کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ انتخابات تین ماہ کی مدت کے اندر ہی ہوجائیں گے۔

وہ کہتی ہیں کہ انتخابات میں تاخیر کی ایک وجہ اپنے لیے حالات سازگار بنانا بھی ہے۔ بعض مبصرین کے خیال میں حکومتی اتحاد بڑی حد تک یہ کام کرچکا ہے البتہ بعض تجزیہ نگار اس سے اتفاق نہیں کرتے۔

’صورتِ حال واضح نہیں‘

پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ اسمبلیوں کی مدت میں توسیع یا نگراں حکومت کے دورانیے میں اضافے کی حمایت نہیں کرے گی۔

تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ مختلف اطراف سے مختلف بیانات سامنے آنے کی وجہ سے انتخابات سے متعلق قیاس آرئیاں ابھی برقرار رہیں گی ۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ حکومت 14 اگست کو ختم ہوگی، پیپلز پارٹی نے 8 اگست کو اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز دی ہے جب کہ مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ انتخابات سے قبل ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ اسی طرح مقتدر قوتیں کہتی ہیں کہ انتخابات اس وقت ہوں گے جب زمینی حقیتوں کا سدباب ہوجائے گا۔

ان کے بقول انتخابات کے انعقاد سے متعلق متضاد بیانات نے صورتِ حال کو غیر واضح کردیا ہے۔

سلیم بخاری کہتے ہیں کہ نئے قانون کے مطابق انتخابات کی تاریخ الیکشن کمیشن کو دینی ہے اور نگراں حکومت کے قیام کے بعد حالات کیا ہوں گے جس کا جائزہ لیتے ہوئے وہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں گے۔وہ کہتے ہیں کہ ان وجوہ کی بنا پر انتخابات کے بارے میں ابھی تک صورتِ حال واضح نہیں ہے۔

XS
SM
MD
LG