اقوامِ متحدہ کے مختلف اداروں نے یمن کے جنوبی شہر تعز میں سرکاری افواج اور قبائلی جنگجووں کی جھڑپوں کے باعث عام افراد کو درپیش مشکلات پر تشویش ظاہر کی ہے۔
فریقین کے درمیان 4 دسمبر کو طے پانے والے جنگ بندی کے معاہدے کے باوجود شہر میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق ان جھڑپوں میں یکم دسمبر سے اب تک 20 افراد ہلاک اور 80 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔
عالمی ادارے کے دفترِ تعاون برائے امدادی امور کی ترجمان الزبتھ بائرز کا کہنا ہے کہ گلی کوچوں میں ہونے والی جھڑپوں اور بھاری اسلحے کے استعمال کے باعث شہر میں عام آبادیوں کو نقصان پہنچا ہے جب کہ کئی شہری اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی کر گئے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے بچوں سے متعلق ادارے 'یونیسیف' کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہر میں جاری لڑائی کی بچوں کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔
'یونیسیف' کی ترجمان خاتون ماریکسی مرساڈو کے مطابق تعز میں پیش آنے والے تشدد کے حالیہ واقعات میں تین بچے ہلاک اور سات زخمی ہوگئے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ان اداروں نے شہر میں قتل و غارت کے واقعات کی فوری روک تھام اور فریقین سے پرتشدد ہتھکنڈے ترک کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ دارالحکومت صنعا سے 200 کلومیٹر جنوب میں واقع تعز یمن کے چند بڑے شہروں میں سے ایک ہے جہاں گزشتہ 10 ماہ سے سرکاری افواج اور 33 سال سے ملک پہ برسرِ اقتدار صدر علی عبداللہ صالح کے مخالف قبائلی جنگجووں کے مابین وقفے وقفے سے شدید لڑائی ہورہی ہے۔
صدر صالح نے گزشتہ ماہ خلیجی ممالک کی کوششوں سے طے پانے والے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت وہ صدارت سے دستبردار ہوکر ملک کا اقتدار اپنے ایک نائب کو سونپ دیں گے۔
تاہم انتقالِ اقتدار کے اس معاہدے کے باوجود تعز میں ہونے والی جھڑپوں میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔