شمالی کوریا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرنے والے اقوام متحدہ کے اعلی ترین تفتیش کار نے عالمی ادارے پر زور دیا ہے کہ وہ ان کی تحقیقاتی رپورٹ کے نتائج پر اس ملک کے خلاف جرائم کی عالمی عدالت میں بھیجے۔
مائیکل کربے نے یہ سفارشات نیویارک میں 15 رکنی سلامتی کونسل کے ایک غیر رسمی اجلاس میں پیش کیں۔
کربے کی سربراہی میں ایک سال تک ہونے والی یہ تحقیقات رواں برس ختم ہوئیں اور اس میں بتایا گیا کہ شمالی کوریا میں حکام "اعلی حکومتی سطح پر" انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہیں جن کی "مثال دنیا میں کسی اور ملک میں نہیں ملتی"۔ رپورٹ کے مطابق شمال نے مخالفین کو ختم کرنے کے لیے اپنے لوگوں کو قید اور تشدد کا نشانہ بنایا۔
سلامتی کے مستقبل ارکان میں ویٹو کے اختیار رکھنے والے رکن ملک چین اور روس نے اس اجلاس کو تسلیم نہیں کیا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ کربے کی سفارشات پر کسی بھی طرح کی فوری کارروائی کی توقعات وابستہ نہیں کی جانی چاہیئں۔
17 فروری کو شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کے نام اس تحقیقاتی رپورٹ کے ہمراہ لکھے گئے خط میں ان سے کہا گیا کہ انھیں بھی ذاتی طور پر انسانیت کے خلاف جرائم میں ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔
چین نے گزشتہ ماہ جنیوا میں ہیومن رائٹس کونسل کو بتایا تھا کہ اس تحقیقاتی رپورٹ کے نتائج "حقیقت پر مبنی نہیں۔"
پیانگ یانگ نے بھی اس رپورٹ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ امریکہ، جاپان اور یورپی یونین کی حمایت یافتہ "جعلی معلومات" پر مبنی ہے۔
مائیکل کربے نے یہ سفارشات نیویارک میں 15 رکنی سلامتی کونسل کے ایک غیر رسمی اجلاس میں پیش کیں۔
کربے کی سربراہی میں ایک سال تک ہونے والی یہ تحقیقات رواں برس ختم ہوئیں اور اس میں بتایا گیا کہ شمالی کوریا میں حکام "اعلی حکومتی سطح پر" انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہیں جن کی "مثال دنیا میں کسی اور ملک میں نہیں ملتی"۔ رپورٹ کے مطابق شمال نے مخالفین کو ختم کرنے کے لیے اپنے لوگوں کو قید اور تشدد کا نشانہ بنایا۔
سلامتی کے مستقبل ارکان میں ویٹو کے اختیار رکھنے والے رکن ملک چین اور روس نے اس اجلاس کو تسلیم نہیں کیا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ کربے کی سفارشات پر کسی بھی طرح کی فوری کارروائی کی توقعات وابستہ نہیں کی جانی چاہیئں۔
17 فروری کو شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کے نام اس تحقیقاتی رپورٹ کے ہمراہ لکھے گئے خط میں ان سے کہا گیا کہ انھیں بھی ذاتی طور پر انسانیت کے خلاف جرائم میں ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔
چین نے گزشتہ ماہ جنیوا میں ہیومن رائٹس کونسل کو بتایا تھا کہ اس تحقیقاتی رپورٹ کے نتائج "حقیقت پر مبنی نہیں۔"
پیانگ یانگ نے بھی اس رپورٹ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ امریکہ، جاپان اور یورپی یونین کی حمایت یافتہ "جعلی معلومات" پر مبنی ہے۔