واشنگٹن —
اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق عالمی کانفرنس قطر کے دارالحکومت دوحا میں شروع ہوگئی ہے۔
دو ہفتوں پر محیط اس کانفرنس میں لگ بھگ 200 ممالک کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں جو دنیا میں 'گرین ہائوس' گیسوں کے اخراج کی روک تھام کے لیے مذاکرات کریں گے۔
کانفرنس کے مندوبین کے پیشِ نظر بنیادی ہدف ماحولیات سے متعلق بین الاقوامی معاہدے 'کیوٹو پروٹوکول' کی مدت میں اضافے پر اتفاقِ رائے کا حصول ہے جو رواں برس کے اختتام پر غیر موثر ہوجائے گا۔
مذکورہ معاہدے کے تحت ترقی یافتہ ممالک کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنی 'گرین ہائوس' گیسوں کے اخراج کو اس سطح سے بھی 5 فی صد کم کریں جو 1990ء میں ریکارڈ کی گئی تھی۔
ماحول کے لیے نقصان دہ 'گرین ہائوس' گیسوں کا ا خراج کرنے والے بڑے ممالک، بشمول امریکہ اور چین پہلے ہی اس معاہدے کا حصہ نہیں جب کہ روس، جاپان اور کینیڈا کا کہناہے کہ وہ 'کیوٹو پروٹوکول' میں توسیع کی صورت میں اس کا حصہ نہیں رہنا چاہتے۔
ان ممالک کے انکار کی صورت میں اگر اس معاہدے کو توسیع دی بھی گئی تو اس کا اطلاق دنیا بھر سے فضا میں چھوڑی جانے والی 'گرین ہائوس' گیسوں کی صرف 15 فی صد مقدار پر ہوپائے گا۔
دوحا کانفرنس کے مندوبین ایک نئے بین الاقوامی ماحولیاتی معاہدے پر بھی تبادلہ خیال کریں گے جسے حتمی شکل دینے کے لیے ان کے پاس 2015ء تک کا وقت ہے۔ منظوری کی صورت میں یہ مجوزہ معاہدہ 2020ء میں موثر ہوگا۔
یاد رہے کہ اس کانفرنس کے انعقاد سے ایک ہفتہ قبل اقوامِ متحدہ نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں دنیا کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت پر قابو پانے کےلیے کوششوں کو تیزتر کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔
عالمی ادارے کی مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2000ء کے بعد سے 'گرین ہائوس' گیسوں کے اخراج میں 20 فی صد اضافہ ہوا ہےاور اگر ان کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیا گیا تو رواں صدی کے اختتام تک دنیا کا اوسط درجہ حرارت 3 سے 5 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ جائے گا۔
دنیا بھر کے سائنس دان اور ماہرینِ ماحولیات اس بات پر متفق ہیں کہ 'گلوبل وارمنگ' کا ایک بڑا سبب وہ اربوں ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے جو انسان نے گزشتہ 100 برسوں کے دوران میں صنعتی فضلے اور دھویں کی شکل میں کرہ ارض میں بھیجی ہے۔
دو ہفتوں پر محیط اس کانفرنس میں لگ بھگ 200 ممالک کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں جو دنیا میں 'گرین ہائوس' گیسوں کے اخراج کی روک تھام کے لیے مذاکرات کریں گے۔
کانفرنس کے مندوبین کے پیشِ نظر بنیادی ہدف ماحولیات سے متعلق بین الاقوامی معاہدے 'کیوٹو پروٹوکول' کی مدت میں اضافے پر اتفاقِ رائے کا حصول ہے جو رواں برس کے اختتام پر غیر موثر ہوجائے گا۔
مذکورہ معاہدے کے تحت ترقی یافتہ ممالک کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنی 'گرین ہائوس' گیسوں کے اخراج کو اس سطح سے بھی 5 فی صد کم کریں جو 1990ء میں ریکارڈ کی گئی تھی۔
ماحول کے لیے نقصان دہ 'گرین ہائوس' گیسوں کا ا خراج کرنے والے بڑے ممالک، بشمول امریکہ اور چین پہلے ہی اس معاہدے کا حصہ نہیں جب کہ روس، جاپان اور کینیڈا کا کہناہے کہ وہ 'کیوٹو پروٹوکول' میں توسیع کی صورت میں اس کا حصہ نہیں رہنا چاہتے۔
ان ممالک کے انکار کی صورت میں اگر اس معاہدے کو توسیع دی بھی گئی تو اس کا اطلاق دنیا بھر سے فضا میں چھوڑی جانے والی 'گرین ہائوس' گیسوں کی صرف 15 فی صد مقدار پر ہوپائے گا۔
دوحا کانفرنس کے مندوبین ایک نئے بین الاقوامی ماحولیاتی معاہدے پر بھی تبادلہ خیال کریں گے جسے حتمی شکل دینے کے لیے ان کے پاس 2015ء تک کا وقت ہے۔ منظوری کی صورت میں یہ مجوزہ معاہدہ 2020ء میں موثر ہوگا۔
یاد رہے کہ اس کانفرنس کے انعقاد سے ایک ہفتہ قبل اقوامِ متحدہ نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں دنیا کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت پر قابو پانے کےلیے کوششوں کو تیزتر کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔
عالمی ادارے کی مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2000ء کے بعد سے 'گرین ہائوس' گیسوں کے اخراج میں 20 فی صد اضافہ ہوا ہےاور اگر ان کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیا گیا تو رواں صدی کے اختتام تک دنیا کا اوسط درجہ حرارت 3 سے 5 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ جائے گا۔
دنیا بھر کے سائنس دان اور ماہرینِ ماحولیات اس بات پر متفق ہیں کہ 'گلوبل وارمنگ' کا ایک بڑا سبب وہ اربوں ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے جو انسان نے گزشتہ 100 برسوں کے دوران میں صنعتی فضلے اور دھویں کی شکل میں کرہ ارض میں بھیجی ہے۔