رسائی کے لنکس

غزہ میں قحط جیسی صورت حال کا اندیشہ، اقوامِ متحدہ کی امداد بحال کرنے کی اپیل


فائل فوٹو
فائل فوٹو

جنگ سے تباہ حال غزہ میں قحط جیسی صورتِ حال پیدا ہونے کے خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان حالا ت میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ ادارے کی فلسطینی امدادی ایجنسی کے لیے فوری طور پر فنڈنگ بحال کریں۔

عالمی ادارے کے سربراہ انتونیو گوتریس نے کہا کہ غزہ کے بے گھر لوگوں کو امداد کی اشد ضرورت ہے۔ اقوامِ متحدہ اس کے ماتحت امدادی ادارے کے رضا کاروں کے حماس کے گزشتہ سال اکتوبر میں اسرائیل پر حملے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کی تحقیقات کر رہا ہے ۔

گوتریس نے خبردار کیا کہ اقوامِ متحدہ کے ماتحت امدادی ایجنسی کے لیے مناسب فنڈنگ کی عدم موجودگی میں غزہ میں 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کی امداد جمعرات سے روک دی جائے گی۔

خیال رہے کہ امریکہ ان نو ممالک میں شامل ہے جنہوں نے امدادی ایجنسی کے ایک ارب 60 کروڑ ڈالر کے سالانہ بجٹ کے لیے ادائیگی روک دی ہے۔

امدادی ادارے کے رضاکاروں پر الزام کیا ہے؟

امداد دینے والے مملک کی طرف سے یہ اقدام امدادی ایجنسی کے ان 12 فلسطینی امدادی کارکنوں کی شناخت ہونے کے بعد کیا گیا جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ حماس کے عسکریت پسندوں کے اس حملے میں معاون تھے جس میں سات اکتوبر 2023 کو 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

لیکن اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ "عملے کے ان ارکان کی مبینہ کارروائی کے نتائج ضرور نکلیں گے اور انہیں مجرمانہ قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔"

امدادی کارکنوں میں سے نو کو فوری طور پر برطرف کر دیا گیا ہے جب کہ ان میں سے ایک کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔

حکام دوسرے کارکنوں کی شناخت کی جانچ پڑتال کر رہے ہیں۔

گوتریس نے مزید کہا کہ پھر بھی ان دسیوں ہزار مرد اور خواتین کو جو یو این آر ڈبلیو نامی امدادی ادارے کے لیے خطرناک حالات میں کام کرتے ہیں سزا نہیں دی جانی چاہیے۔

انہوں نے زور دیا کہ ان مایوس حالات میں پھنسی آبادیوں کی جن کی کارکن خدمت کرتے ہیں ان کی شدید ضروریات کو پورا کیا جانا چاہیے۔

اسرائیل کا ردِ عمل

اسرائیل نے فوری طور پر فلسطینیوں کی امداد بحال کرنے کے مطالبے پر گوتریس پر تنقید کی ہے۔

اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کے سفیر جلعاد اردان نے کہا ہے کہ گوتریس نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ اسرائیل کے شہریوں کی سلامتی ان کے لیے اہم نہیں ہے۔

اسرائیلی سفیر کا کہنا تھا کہ وہ ذاتی طور پر کئی برس سے امدادی ایجنسی کے رضا کاروں کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے بارے میں ان کو شواہد دیتے رہے ہیں۔ لیکن ان کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔

جلعاد اردان کے بقول گوتریس نے پہلے کہا کہ وہ حماس کے تمام دہشت گردوں کا پتا لگانے کے لیے جامع تحقیقات کریں گے اور اب وہ ایک ایسی تنظیم کو فنڈ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں جو دہشت گردی سے بری طرح آلودہ ہے۔

یاد رہے کہ حماس کو امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین اور دیگر ممالک نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔

اسرائیلی سفیر کا مزید کہنا تھا کہ ہر وہ ملک جو امدادی ایجنسی کو فنڈز فراہم کرتا ہے اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اس کی رقم دہشت گردی کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔ ان کے مطابق ان ممالک کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ان کی امداد غزہ کے لوگوں کے بجائے حماس کے دہشت گردوں تک پہنچ سکتی ہے۔

امدادی ایجنسی کو فنڈز فراہم کرنے والے ممالک

اقوامِ متحدہ کا ادارہ 1948 میں جنگ میں بے گھر ہونے والے یا اسرائیل سے بے دخل کیے گئے فلسطینی خاندانوں کو طبی سہولیات اور تعلیم سمیت بنیادی امداد فراہم کرتا ہے۔

یہ فلسطینی خاندان اب غزہ، مغربی کنارے، اردن، لبنان اور شام میں پناہ گزین کیمپوں میں رہتے ہیں۔

امریکہ امدادی ایجنسی کا سب سے بڑا مالی معاون رہا ہے۔ لیکن اب نو ممالک نے اس امدادی ایجنسی کو امدادی کاموں کے لیے ادائیگی روک دی ہے۔ یہ ممالک اس ایجنسی کے امور کے لیے 60 فی صد فنڈنگ فراہم کرتے ہیں۔

امریکہ کے علاوہ آسٹریلیا، برطانیہ، کینیڈا، جرمنی، اٹلی، فن لینڈ، نیدرلینڈز اور سوئٹزرلینڈ وہ ممالک ہیں جو امدادی ایجنسی کو فنڈز فراہم کرتے ہیں۔

اس رپورٹ میں شامل مواد خبر رساں اداروں اے پی، اے ایف پی اور رائٹرز سے لیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG