رسائی کے لنکس

بھارت میں اپوزیشن کو دھچکا، ریاست بہار کے وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار کا بی جے پی سے اتحاد


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد ’انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلیوسیو الائنس‘ (انڈیا) کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرنے والے ریاست بہار کے وزیرِ اعلیٰ اور جنتا دل یونائیٹڈ کے رہنما نتیش کمار نے کئی روز کی قیاس آرائیوں کو ختم کرتے ہوئے اتوار کو اپوزیشن اتحاد کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔

نتیش کمار نے مرکز میں حکمراں ’بھارتیہ جنتا پارئی‘ (بی جے پی) کی قیادت والے اتحاد ’نیشنل ڈیموکریٹک الائنس‘ (این ڈی اے) سے اتحاد کرکے بہار میں ایک بار پھر مخلوط حکومت قائم کر لی ہے۔

انہوں نے اتوار کو دوپہر سے قبل بہار کی وزارتِ اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دیا اور شام ہوتے ہوتے بی جے پی کے ساتھ مل کر ریاست میں پھر حکومت سازی کر لی۔

ریاستی گورنر راجندر الرکار نے نتیش کمار اور ان کے ساتھ بی جے پی سے تعلق رکھنے والے دو نائب وزرائے اعلیٰ سے عہدے اور رازداری کا حلف لیا۔

نتیش کمار نے ریکارڈ نویں مرتبہ وزیرِ اعلیٰ کے عہدے کا حلف لیا ہے۔

قبل ازیں انہوں نے 18 ماہ قبل 2022 میں بی جے پی کا ساتھ چھوڑ کر لالو پرساد یادو کی جماعت ’راشٹریہ جنتا دل‘ (آر جے ڈی) اور کانگریس کے ساتھ مل کر بہار میں مخلوط حکومت قائم کی تھی۔ اس سے دو سال پہلے 2020 میں انہوں نے بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت تشکیل دی تھی۔

انہوں نے جب 2022 میں بی جے پی سے رشتہ توڑا تھا تو اعلان کیا تھا کہ ’’وہ مرنا پسند کریں گے لیکن اب بی جے پی سے کبھی اتحاد نہیں کریں گے۔‘‘ لیکن اتوار کو نویں مرتبہ وزیرِ اعلیٰ کا حلف لینے کے بعد انہوں نے کہا کہ ’’وہ جہاں پہلے تھے وہیں واپس آ گئے ہیں۔‘‘

اس وقت مرکزی وزیرِ داخلہ امت شاہ نے ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ نتیش کمار کے لیے بی جے پی کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہو گئے ہیں۔ اب اگر وہ آنا چاہیں گے تب بھی ان کے ساتھ اتحاد نہیں کیا جائے گا۔

بی جے پی کے دوسرے رہنماؤں نے بھی اسی قسم کا بیان دیا تھا۔

لیکن چند روز قبل جب بہار کی سیاست میں غیر یقینی کی کیفیت پیدا ہوئی اور نتیش کمار کے بی جے پی سے ایک بار پھر اتحاد کی قیاس آرائی کی جانے لگیں۔ سینئر بی جے پی رہنما اور نتیش کمار کی حکومت میں نائب وزیرِ اعلیٰ رہنے والے سشیل کمار مودی نے کہا تھا کہ سیاست میں نہ کوئی مستقل دوست ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی مستقل دشمن ہوتا ہے۔

یاد رہے کہ نتیش کمار نے 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو شکست دینے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد قائم کرنے کے سلسلے میں پہل کی تھی اور جون 2023 میں انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کے پہلے اجلاس کی میزبانی بھی کی تھی۔

اس کے بعد وہ اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ میں کسی بھی قسم کی پیش رفت نہ ہونے سے مایوس تھے۔ انہوں نے اس بارے میں کانگریس کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔

وزارتِ اعلیٰ کے عہدے کا حلف لینے سے قبل انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آر جے ڈی کے ساتھ ان کے اتحاد اور انڈیا بلاک میں کچھ نہیں ہو رہا تھا۔

ان کے مطابق دوسروں کی جانب سے انڈیا اتحاد کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی وجہ سے عوام خوش نہیں ہیں۔

ان کے بقول انہوں نے آج اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا اور گورنر سے حکومت ختم کرنے کی اپیل کی۔ پارٹی رہنماؤں نے انہیں اس کا مشورہ دیا تھا۔ ان کے بقول انہوں نے ان کے مشورے پر عمل کیا اور استعفیٰ دے دیا۔

ان کے مطابق ’’حکومت میں حالات ٹھیک نہیں تھے۔ اس لیے ہم نے اتحاد سے علیحدگی اختیار کر لی۔‘‘

وزیرِ اعظم نریندر مودی نے نتیش کمار کو عہدے کا حلف لینے کے بعد مبارک باد پیش دی ہے۔

سوشل پر ایک بیان میں نریندر مودی نے کہا کہ بہار میں قائم ہونے والی این ڈی اے کی حکومت عوامی امنگوں کو پورا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔

آر جے ڈی رہنما اور نتیش حکومت میں نائب وزیرِ اعلیٰ رہنے والے تیجسوی یادو نے ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں جنتا دل یونائیٹڈ ختم ہو جائے گی۔ ہم نے بہار کی ترقی کے لیے کام کیا ہے اور ہم اپنا کام کرتے رہیں گے۔

اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اور سماجوادی پارٹی کے لیڈر اکھلیش یادو نے کہا کہ ’نتیش کمار نے دھوکہ دینے کا نیا ریکارڈ بنایا ہے اور اس وقت بی جے پی بہت کمزور ہو گئی ہے‘۔ اس سے قبل انھوں نے کہا تھا کہ اگر نتیش کمار اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کے ساتھ رہتے تو وہ ملک کے وزیر اعظم بن سکتے تھے۔

کانگریس نے اپنے ردِ عمل میں کہا کہ وہ بہار کے واقعات سے باخبر ہے۔ لیکن انڈیا بلاک کے مفاد کے پیش نظر کوئی تبصرہ نہیں کرے گی۔ جنتا دل یونائٹڈ کے اس الزام پر کہ کانگریس نے نتیش کمار کی توہین کی ہے، کانگریس نے کہا کہ نتیش کمار اپوزیشن کے اتحاد کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے تھے اسی لیے وہ بی جے پی کے ساتھ چلے گئے۔

قبل ازیں کانگریس کے صدر ملک ارجن کھڑگے نے نتیش کمار کو منانے کے لیے ان سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اس میں ناکام رہے تھے۔

نتیش کمار کے سابق پول مینیجر اور سیاستی حکمت عملی ترتیب دینے کے ماہر پرشانت کشور نے کہا کہ بی جے پی کے ساتھ نتیش کمار کا ساتھ جلد ختم ہو جائے گا۔ پارلیمانی انتخابات کے چھ ماہ کے اندر بہار میں پھر تبدیلی آئے گی۔

ان کے مطابق 2025 میں بہار میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں نتیش کمار کی پارٹی جے ڈی یو کو 243 رکنی اسمبلی میں مشکل سے 20 سیٹیں ملیں گی۔ اس وقت وہ کہاں جائیں گے۔

مبصرین کے مطابق نتیش کمار کو ہر حال میں وزیرِ اعلیٰ کا عہدہ چاہیے۔ تیجسوی یادو کے ساتھ وہ خود کو ہم آہنگ نہیں کر پا رہے تھے۔ اس لیے انہوں نے ایک بار پھر بی جے پی کا دامن تھام لیا۔

سینئر تجزیہ کار اُرملیش کے مطابق نتیش کمار کے دو قریبی ساتھیوں نے جن کا بی جے پی سے گہرا تعلق ہے، ان کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی تھی کہ رام مندر کے افتتاح کے بعد بہار میں بی جے پی کی پوزیشن مضبوط ہو گئی۔ ان کے بقول 2024 کے پارلیمانی اور 2025 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو زبردست کامیابی ملے گی۔ اگر انہوں نے اس کا ساتھ نہیں دیا تو وہ پھر وزیر اعلیٰ نہیں بن پائیں گے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بی جے پی نے ان کو پھر اپنے ساتھ ملانا اس لیے ضروری سمجھا کہ اس کے خیال میں بہار میں پسماندہ ووٹ نتیش کمار کے ساتھ ہے۔ لہٰذا اگر ان سے اتحاد نہیں کیا گیا تو پارلیمانی اور اسمبلی دونوں انتخابات میں اسے زیادہ ووٹ نہیں ملیں گے۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نتیش کمار اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کے کنوینئر اور وزیرِ اعظم کے عہدے کے امیدوار بننا چاہتے تھے۔ لیکن کانگریس اس کے لیے تیار نہیں تھی۔ اسی لیے انہوں نے اپوزیشن کا ساتھ چھوڑ دیا۔

مبصرین کے مطابق مرکزی حکومت نے بہار میں پسماندہ برادریوں کے مسیحا کہے جانے والے سابق وزیرِ اعلیٰ کرپوری ٹھاکر کو اعلیٰ سول اعزاز ’بھارت رتن‘ اسی لیے دیا تھا تاکہ وہ اپوزیشن کے اتحاد کو توڑ سکے۔

خیال رہے کہ حکومت نے 27 جنوری کو کرپوری ٹھاکر کو بھارت رتن دینے کا اعلان کیا تھا جس پر نتیش کمار نے وزیرِ اعظم کا شکریہ ادا کیا اور لالو پرسادیادو کی پارٹی آر جے ڈی پر طنز کرتے ہوئے خاندانی سیاست پر تنقید کی تھی۔

اس کے بعد ہی تجزیہ کار یہ قیاس آرائی ہو رہی تھیں کہ نتیش کمار ایک بار پھر رخ بدلنے والے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG