اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ عالمی سطح پر سب کے لیے مساوی مواقع پیدا کرنے کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک نیا عمرانی معاہدہ طے کیا جائے۔ انھوں نے یہ بات نسلی عصبیت کے خلاف جدوجہد کرنے والی قدآور شخصیت نیلسن منڈیلا کی سالگرہ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہی۔
جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر اور نسلی امتیاز کے خلاف مثالی جدوجہد کرنے والے نامور ترین شخص، آنجہانی نیلسن منڈیلا کا آج 102واں یوم پیدائش ہے۔
اینٹونیو گتریس نے نیلسن منڈیلا فاؤنڈیشن کے منعقدہ اجلاس کے دوران اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ ''ملکوں کے مابین نئے عمرانی معاہدے کے نتیجے میں نوجوان کو عزت سے جینے کا حق ملے گا، خواتین کو مردوں کے مساوی مواقع نصیب ہوں گے؛ اس سے بیماروں، کمزوروں اور تمام قسم کی اقلیتوں کو یکساں مواقع میسر آئیں گے''۔
گتریس نے کہا کہ لوگ اس بات کے خواہاں ہیں کہ ایسے سماجی اور معاشی نظام ہوں جن سے سبھی کو مساوی مواقع میسر آئیں؛ اور جو فیصلے ان کی زندگی کے لیے ضروری ہیں ان میں ان کی رائے کو لازمی طور پر شامل کیا جانا چاہیے۔
اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ لوگ ''انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کی حرمت یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ حکومتوں، افراد، متمدن معاشرے، کاروبار اور دیگر شعبہ جات کے لیے نیا سماجی ضابطہ چاہتے ہیں، جس میں ملازمت کا حصول، پائیدار ترقی اور سماجی تحفظ میسر آئے، جن کی بنیاد مساوی حقوق اور یکساں مواقع پر رکھی جائے''۔
کرونا وائرس کی بنا پر، انھوں نے وڈیو لنک کے ذریعے نیویارک سے خطاب کیا۔ جنوبی افریقہ میں کرونا وائرس کے متاثرین کی تصدیق شدہ تعداد 325،000 ہے۔
گتریس نے کہا کہ ''کرونا وائرس کی وبا ایک انسانی المیہ ہے۔ لیکن، اس کی وجہ سے نئی نسل کے لیے بہت سے مواقع بھی کھلے ہیں، جن کی مدد سے زیادہ مساوی اور پائیدار عالمی معیار وضع کرنے کے امکانات منظر عام پر آئے ہیں''۔
ان کے کلمات میں عالمگیر سطح پر عدم مساوات کے رجحانات پر دھیان مرکوز کیا گیا، جن کی نشاندہی، بقول ان کے، وبا کے بعد کھل کر سامنے آ گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے سربراہ نے اصلاحات کے عمل پر زور دیا، تاکہ مسئلے کی اساس تک پہنچا جا سکے۔
گتریس نے کہا کہ ''غیر مساویانہ انداز کی شروعات عالمی اداروں کی اعلیٰ ترین سطح سے ہوتی ہے''۔
انھوں نے تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، قوم پرستانہ سوچ، انتہا پسندی اور نسل پرستی سے خبردار کیا اور کہا کہ ان کی وجہ سے سوچ کی مزید تقسیم اور معاشرے میں عدم مساوات میں اضافہ ہو گا۔
اپنے لیے انھوں نے کہا کہ وہ خواتین کے حقوق کے حامی ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے کہا کہ یہ بات درست نہیں کہ مرد ہی سرپرست ہو سکتا ہے، جس سوچ کو تبدیل کر کے صنفی برابری لائی جائے۔