اقوامِ متحدہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے شام میں 30 روزہ جنگ بندی موثر نہ ہونے کی شکایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دمشق کے نواحی علاقے مشرقی غوطہ پر سرکاری فوج کی بمباری اور فضائی حملوں میں گزشتہ 10 روز کے دوران لگ بھگ 600 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
سلامتی کونسل نے ہفتے کو اپنے ایک اجلاس میں شام میں 30 روزہ جنگ بندی کی قرارداد اتفاقِ رائے سے منظور کی تھی جس کا اطلاق پورے ملک میں ہونا تھا۔
جنگ بندی کا مقصد باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں خصوصاً دمشق کے مشرقی نواحی علاقے غوطہ میں پھنسے زخمیوں اور بیماروں کا انخلا اور متاثرہ علاقوں تک امداد پہنچانا ہے۔
تاہم بدھ کو اقوامِ متحدہ کے صدر دفتر واقع نیویارک میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے نائب سیکریٹری جنرل برائے انسانی امور اور ہنگامی امداد مارک لوکوک کا کہنا تھا کہ قرارداد کی منظوری کو کئی روز گزر جانے کے باوجود اب تک امدادی اداروں کو متاثرہ علاقوں تک رسائی نہیں دی گئی ہے۔
انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ قرارداد کی منظوری کے بعد سے شامیوں کو مزید بمباری، مزید لڑائی، مزید ہلاکتوں، مزید تباہی، مزید بھوک اور مزید تکلیف کا سامناہے اور گزشتہ چند روز میں کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔
مارک لوکوک نے کہا کہ اقوامِ متحدہ اور اس کے معاون امدادی اداروں کے ٹرک امدادی سامان سے لدے تیار کھڑے ہیں جب کہ جنگ زدہ علاقوں میں پھنسے زخمیوں اور عام شہریوں کے انخلا کی تیاریاں بھی مکمل ہیں لیکن ان کے بقول لڑائی نہیں رک رہی۔
انہوں نے کہا کہ جیسے ہی جنگ بندی مؤثر ہوگی اور انہیں شام میں داخلے کی اجازت ملے گی امدادی اہلکار اپنا کام شروع کردیں گے۔
مارک لوکوک نے کہا کہ جنگ بندی کی قرارداد ہفتے کو منظور کی گئی تھی جس کے دو روز بعد مشرقی غوطہ اور درجنوں دوسرے مقامات پر شامی حکومت کے فضائی حملوں، بیرل بم گرانے اور بمباری کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ 18 فروری سے اب تک صرف مشرقی غوطہ کے علاقے میں زمینی اور فضائی حملوں میں 580 سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں جب کہ ایک ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
عالمی ادارے کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ لڑائی کے دوران مشرقی غوطہ میں موجود باغیوں نے بھی دارالحکومت دمشق پر ہزاروں راکٹ حملے کیے ہیں جن میں اب تک 15 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
شامی حکومت کے اہم ترین سیاسی اور فوجی اتحادی روس نے بھی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد کی حمایت کی تھی۔
لیکن روسی حکام نے کہا ہے کہ وہ جنگ بندی کی قرارداد کی روشنی میں مشرقی غوطہ کے ارد گرد جاری فوجی کارروائیاں روزانہ صرف پانچ گھنٹے کے لیے روکیں گے تاکہ اس دوران امدادی اہلکار اپنی سرگرمیاں انجام دے سکیں۔
تاہم مارک لوکوک نے کہا ہے کہ روس کی جانب سے اعلان کردہ پانچ گھنٹے کی جنگ بندی علاقے میں امداد پہنچانے اور وہاں پھنسے بیماروں اور زخمیوں کو نکالنے کی کارروائیوں کے لیے ناکافی ہے۔
سلامتی کونسل کے کئی ارکان نے بھی روس کی جانب سے روزانہ پانچ گھنٹے کی عارضی جنگ بندی کی تجویز کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے اقوامِ متحدہ کی قرارداد کے منافی قرار دیا ہے۔
عالمی اداروں کے مطابق مشرقی غوطہ میں چار لاکھ سے زائد عام شہری پھنسے ہوئے ہیں جو علاقے میں موجود باغیوں کے خلاف کیے جانے والے شامی فوج کے جارحانہ زمینی اور فضائی حملوں کا بری طرح نشانہ بن رہے ہیں۔
مشرقی غوطہ میں سرگرم سب سے بڑی باغی تنظیم نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے نام منگل کو لکھے جانے والے اپنے خط میں کہا ہے کہ اس کے جنگجو جنگ بندی کی قرارداد کی مکمل پابندی کریں گے اور وہ اپنے علاقے میں آنے والے امدادی قافلوں کی مکمل حفاظت کی گارنٹی دیتے ہیں۔
باغیوں کی کئی بڑی تنظیموں نے عالمی ادارے کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ جنگ بندی موثر ہونے کے 15 روز کے اندر اندر القائدہ، نصرہ فرنٹ اور دیگر شدت پسند گروہوں کے ان افراد کو بے دخل کردیں گے جن کے بارے عالمی برادری اور شامی حکومت کا الزام ہے کہ وہ مشرقی غوطہ میں چھپے ہوئے ہیں۔
سلامتی کونسل کے کئی ارکان نے باغیوں کی اس پیشکش کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے مثبت پیش رفت قرار دیا ہے۔
تاہم امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ جنگ بندی موثر ہونے کے کئی روز بعد بھی مشرقی غوطہ میں لڑائی جاری ہے اور بدھ کو بھی شامی افواج نے علاقے میں فضائی حملے اوربمباری کی ہے۔