شام کے دارالحکومت دمشق کے مشرق میں باغیوں کے زیر قبضہ شہر غوطہ میں ہفتے کے روز فضائی حملوں کے نئے سلسلے میں کم از کم 24 افراد ہلاک ہوگئے جس کے بعد پچھلے ایک ہفتے کے دوران ہلاک ہونے والوں کی تعداد 500 سے بڑھ گئی ہے جن میں 120 بچے بھی شامل ہیں۔
برطانیہ میں قائم سیرین آبرویٹری فار ہیومن رائٹس اور عینی شاہدوں نے بتایا کہ ہفتے کے روز کے فضائی حملے شام کی حکومت اور روس کی تازہ فضائی مہم کا حصہ ہیں اور یہ حملے اتنے شدید ہیں کہ کسی کو یہ موقع ہی نہیں مل سکا کہ وہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی گنتی ہی کر سکے۔
اس سے قبل شام کی صورتحال پر نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم 'سریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' نے بتایا تھا ہفتہ کو غوطہ کے مشرقی علاقے میں ہونے والی بمباری سے کم از کم تین شہری ہلاک اور 12 زخمی ہوگئے۔
تنظیم نے دعویٰ کیا کہ یہ بمباری شامی سرکاری فورسز اور اس کی اتحادی روسی فضائیہ کی طرف سے کی جا رہی ہے۔
تاہم ماسکو غوطہ پر کی جانے والی کارروائیوں میں براہ راست ملوث ہونے کے دعوؤں کو مسترد کرتا ہے۔
گزشتہ روز ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام میں روس کی حالیہ کارروائیوں کو ایک "تضحیک" قرار دیا تھا۔
آبزرویٹری نے جمعہ کو غوطہ میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 41 بتائی تھی جس میں 17 بچے بھی شامل تھے۔
2013ء سے یہ علاقہ شامی سرکاری فورسز کے محاصرے میں ہے۔
دریں اثناء یہاں فائر بندی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہونے والی رائے شماری جمعہ کو موخر کر دی گئی تھی جو اب ہفتہ کو دیر گئے متوقع ہے۔
اقوام متحدہ غوطہ میں کم از کم ایک ماہ کی فائر بندی پر زور دے رہی ہے تا کہ یہاں طبی امداد پہنچائی جائے اور شدید زخمیوں کو یہاں سے باہر منتقل کیا جا سکے۔