مشرقی یوکرین کے لڑائی والے علاقے سے روس نواز باغیوں اور یوکرین کی فوج بھاری اسلحے کو پیچھے ہٹانے سے انکار کیا ہے۔
بین الاقوامی کوششوں سے اس علاقے میں جنگ بندی کا معاہدہ اتوار سے نافذ العمل ہے لیکن اس کے باوجود بھی یہاں سے لڑائی کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
قبل ازیں عہدیداروں نے بتایا تھا کہ یوکرین، روس اور جرمنی کے رہنماؤں کے درمیان مشرقی یوکرین کے علاقے میں یورپی سکیورٹی کے مبصرین کو رسائی دینے کے معاہدے پر متفق ہو گئے ہیں۔
جرمنی کی حکومت کی طرف سے منگل کو جاری کیے گئے ایک بیان میں بتایا گیا کہ یہ اتفاق یوکرین کے صدر پیٹرو پوروشنکو، روس کے صدر ولادیمر پوٹن اور جرمنی کی چانسلر آنگیلا مرخیل کے درمیان ہونے والی ٹیلی فون کی کانفرنس کال میں کیا گیا۔
بیان کے مطابق یورپ میں تعاون اور سکیورٹی کی تنظیم (آرگنائزیشن فار سکیورٹی اینڈ کو آپریشن ان یورپ) کے حکام کو مشرقی یوکرین میں رسائی کے لیے "ٹھوس اقدامات" کرنے پر اتفاق ہوا۔ لیکن ان اقدامات کی وضاحت نہیں کی گئی۔
روس نواز باغیوں نے یوکرین کی فوج کے زیر قبضہ علاقے ڈیبالٹسیو کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور اس پر حملوں کو سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
منگل کو باغیوں کے ایک ترجمان ڈینس پشلین نے خبر رساں ایجنسی "رائٹرز" کو بتایا کہ علیحدگی پسندوں کا یہ اخلاقی حق ہے کہ وہ اس شہر کا دفاع کریں جو ان کے بقول "ان کا خطہ" ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ باغی باہمی طور پر انخلا کے لیے تیار ہیں لیکن "کسی بھی حملے کی صورت میں" اس کا جواب دیتے رہیں گے۔
امریکہ اس شہر اور اس کے گرد و نواح کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر "شدید تشویش" کا اظہار کر چکا ہے۔
محکمہ خارجہ نے پیر کو ایک بیان میں کہا تھا کہ اتوار سے باغیوں کی طرف سے جنگ بندی معاہدے کی 129 خلاف ورزیاں اور پانچ ہلاکتیں رپورٹ ہو چکی ہیں۔