رسائی کے لنکس

مودی کا دورۂ یوکرین مکمل: 'بھارت اب تنازع میں غیر فعال نہیں رہے گا'


  • وزیرِ اعظم مودی کے جنگ زدہ یوکرین کے دورے سے تین اہم اقدامات کا آغاز ہوا ہے، راجہ موہن
  • مودی کا یہ دورہ اس بات کا اشارہ ہے کہ بھارت اب اس تنازع میں غیر فعال نہیں رہے گا، تجزیہ کار
  • مودی کے دورے کا اولین مقصد اس امیج کو بحال کرنا تھا جو عالمی دباؤ کی وجہ سے متاثر ہوا تھا، تجزیہ کار سنجے کپور
  • یوکرین تنازع میں مودی اگر کچھ کرنا چاہیں گے تو انہیں اس سلسلے میں ایک ایسا ایلچی مقرر کرنا ہوگا جس پر سب کو اعتبار ہو، سنجے کپور

نئی دہلی _ بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی دورۂ یوکرین مکمل کرنے کے بعد ہفتے کو وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ ان کا یہ دورہ یوکرین میں جاری جنگ اور روس سے بھارت کے قریبی تعلقات کے تناظر میں ہو رہا تھا۔ لہٰذا اس پر پوری دنیا کی نظریں مرکوز تھیں۔

وزیرِ اعظم مودی کے روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے دوستانہ رشتے ہیں اس لیے تنازع کے پرامن حل کی سمت میں کوئی پیش رفت کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا۔ یہی نہیں سن 1991 میں یوکرین کی آزادی کے بعد کسی بھارتی وزیرِ اعظم کا یوکرین کا یہ پہلا دورہ تھا۔

مبصرین کا خیال ہے کہ وزیرِ اعظم مودی کوئی امن فارمولہ لے کر نہیں گئے تھے جب کہ بعض کا خیال ہے کہ اس دورے سے بھارت اور روس کے تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

انسٹی ٹیوٹ آف ساؤتھ ایشین اسٹڈیز، نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور میں وزٹنگ ریسرچ پروفیسر اور دہلی کے اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کے کنٹریبیوٹنگ ایڈیٹر سی راجہ موہن کا خیال ہے کہ وزیرِ اعظم مودی کے جنگ زدہ یوکرین کے دورے سے تین اہم اقدامات کا آغاز ہوا ہے۔

ان کے بقول ان اقدامات میں یورپ کی امن کی تلاش میں بھارت کی شمولیت، یوکرین جنگ سے قائم ہونے والے عالمی جیوپولیٹیکل منظرنامے پر بھارت کی موجودگی اور یوکرین کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ بہتر بنانا شامل ہے۔

وزیرِ اعظم مودی 21 اگست کو پولینڈ پہنچے تھے جہاں سے وہ بذریعہ ٹرین کیف گئے تھے۔

راجہ موہن اخبار کے لیے اپنے تجزیے میں لکھتے ہیں کہ مودی کا ٹرین کے ایک طویل سفر کے بعد یوکرین کے صدر ولودو میر زیلنسکی کے ساتھ جنگ اور امن کے موضوع پر وسیع تر تبادلہ خیال اپنے آپ میں اہمیت رکھتا ہے۔

ان کے مطابق جنگ کے جیوپولیٹیکل نتائج کے درمیان مودی کا یہ دورہ اس بات کا اشارہ ہے کہ بھارت اب اس تنازع میں غیر فعال نہیں رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ یوکرین بھارت کی جانب سے کسی امن فارمولے کا منتظر نہیں تھا۔ تاہم وہ چاہتا تھا کہ مودی ایک ایسے ملک کی حیثیت سے اس کی بقا سے متعلق تشویش کو سمجھیں جس کی صدائے بازگشت بھارت اور گلوبل ساؤتھ میں بہت ہلکی ہے۔

عالمی امور کے سینئر تجزیہ کار اور ’ہارڈ نیوز‘ میگزین کے ایڈیٹر سنجے کپور کہتے ہیں کہ مودی کے گزشتہ ماہ روس کے دورے اور اس موقع پر یوکرین میں بچوں کے اسپتال پر حملے کی وجہ سے مودی پر شدید تنقید کی جا رہی تھی اس لیے انہوں نے کیف کا دورہ کیا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مودی کے دورے کو پرامید نظروں سے دیکھا گیا اور یہ سمجھا گیا کہ شاید قیامِ امن کے سلسلے میں کوئی پیش رفت ہوگی۔ لیکن ان کے خیال میں اس دورے کا اولین مقصد مودی کے اس امیج کو بحال کرنا تھا جو عالمی دباؤ کی وجہ سے متاثر ہوا تھا۔

عالمی امور کے سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر ذاکر حسین کہتے ہیں کہ مودی کے دورے کو دنیا میں دو طرح سے دیکھا گیا۔ ایک تو اسے بیلنسنگ ایکٹ مانا گیا کہ وہ روس گئے تو یوکرین بھی گئے۔ دوسرا یہ تاثر تھا کہ مودی کو شاید امریکہ کے دباؤ میں یوکرین جانا پڑا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ذاکر نے کہا کہ بھارت کسی دباؤ میں نہیں ہے۔ روس کے خلاف اقوامِ متحدہ میں کئی قراردادیں پیش ہوئیں لیکن بھارت ووٹنگ سے غیر حاضر رہا۔ اس کے علاوہ اس نے امریکی پابندیوں کے باوجود روس سے تیل کی درآمد بند نہیں کی جب کہ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تجارت کا حجم 66 بلین ڈالر ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب یوکرین میں بچوں کے اسپتال پر حملہ ہوا تو وزیرِ اعظم مودی نے کہا تھا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے سفارت کاری اور مذاکرات سے تنازع کے حل کی بات کی تھی اور بھارت آج بھی اسی مؤقف پر قائم ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان چار معاہدوں پر دستخط

سنجے کپور کے مطابق مودی نے یوکرین میں اس بات کا اعادہ کیا کہ جنگ سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ البتہ وہ کچھ کرنا چاہیں گے تو انہیں اس سلسلے میں ایک ایسا ایلچی مقرر کرنا ہوگا جس پر سب کو اعتبار ہو۔

فروری 2022 میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد یوکرین بھارت تجارت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ دونوں ملکوں کے درمیان 2021- 2022 میں باہمی تجارت 3.39 بلین ڈالر تھی جو کہ 2023-2024 میں کم ہو کر 0.71 بلین ڈالر تک آگئی ہے۔

مودی کے دورۂ یوکرین کے موقع پر چار معاہدوں پر دستخط کیے گئے ہیں جن کے تحت زراعت، غذائی صنعت، ادویات، ثقافت اور انسانی امداد کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینا شامل ہے۔

مشترکہ بیان میں دونوں ملکوں نے مستقبل میں باہمی تعلقات کو جامع شراکت داری سے اسٹرٹیجک شراکت داری تک لے جانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

کئی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مودی نے جس طرح زیلنسکی کو گلے لگایا اور ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا وہ روس کے لیے ایک پیغام ہے۔

لیکن سنجے کپور کا خیال ہے کہ عالمی رہنماؤں کو گلے لگانا نریند رمودی کی سفارت کاری کا ایک حصہ ہے اس میں کچھ زیادہ مفہوم نہیں نکالا جانا چاہیے۔ وہ جس سے بھی ملتے ہیں اسے گلے لگاتے ہیں۔

واضح رہے کہ نریندر مودی کے دورۂ روس کے دوران صدر پوٹن کو گلے لگانے پر امریکہ اور مغرب کی جانب سے تنقید کی جا رہی تھی۔

بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے کیف میں اس بارے میں وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ گلے لگانا بھارتی ثقافت کا ایک حصہ ہے جو مغرب کے لوگ نہیں جانتے۔ اسی لیے وہ تنقید کر رہے ہیں۔

بعض مبصرین کے خیال میں مودی کے دورۂ یوکرین سے روس اور بھارت کے تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

سی راجہ موہن کا کہنا ہے کہ بھارت کے سوویت روس کے زمانے سے ہی اس سے دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔ لیکن ان تعلقات کی توسیع یوکرین تک نہیں ہوئی۔

ان کے خیال میں روس کی جانب بھارت کے جھکاؤ نے اسے وسطی اور مشرقی یورپ سے قربت اختیار کرنے سے باز رکھا۔ اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم مودی کا دورہ خارجہ پالیسی میں اہم تبدیلی ہے۔

لیکن سنجے کپور مودی کی اس بات سے متفق نہیں ہیں کہ بھارت پہلے دوسرے ملکوں کے قریب نہیں جاتا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ بھارت کے رشتے تمام ملکوں سے رہے ہیں۔ وہ یورپ کے بھی بہت قریب رہا ہے۔ وہ مختلف عالمی فورمز پر پہلے سے موجود رہا ہے۔

ڈاکٹر ذاکر حسین کے مطابق بھارت کی خارجہ پالیسی میں اس بات کا احساس کیا گیا ہے کہ اگر اسے عالمی منظرنامے پر کچھ کردار ادا کرنا ہے تو اسے کچھ ایسے قدم اٹھانا ہوں گے جن سے وہ یہ بتا سکے کہ اس کے دوست اور دشمن عالمی خواہشات کے مطابق نہیں ہوں گے بلکہ وہ اپنے معیار اور اصولوں کے مطابق ان کا انتخاب کرے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ روس کے بعض میڈیا اداروں نے مودی کے دورے کی جس طرح رپورٹنگ کی اس سے پوٹن کو کچھ پریشانی ہوئی ہے۔ لیکن مجموعی طور پر روس کو یہ یقین ہے کہ بھارت کے ساتھ اس کا تجارتی لین دین قائم رہے گا۔

یاد رہے کہ روس نے فروری 2022 میں جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یوکرین پر حملہ کیا تھا۔ روس اس کارروائی کو خصوصی ملٹری آپریشن قرار دیتا ہے۔ اس جنگ میں بڑی تعداد میں عام شہری ہلاک اور بے گھر ہو چکے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG