رسائی کے لنکس

بھارت: کیرالہ میں 24 گھنٹوں میں دو سیاسی کارکنوں کے قتل کے بعد کشیدگی


بھارت کی جنوبی ریاست کیرالہ میں سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک ایک رہنما کے قتل کے بعد کشیدگی میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

رپورٹس کے مطابق پولیس نے علاقے میں لوگوں کے اجتماع پر پابندی عائد کر دی ہے۔

وزیرِ اعلیٰ پنیاری وجین نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ذمے داروں کے خلاف سخت کارروائی کی یقین دہانی کرائی ہے۔

ایس ڈی پی آئی کے ریاستی سیکریٹری کے ایس شان ہفتے کی شام کو اپنے گھر جا رہے تھے کہ نامعلوم افراد نے ان پر چاقو سے حملہ کر دیا۔

پولیس کے مطابق شان موٹر سائیکل پر سوار تھے کہ اسی دوران کار میں سوار ایک گروپ نے ان کا راستہ روکا اور چاقو سے حملہ کیا۔ انہیں کوچی اسپتال میں داخل کیا گیا جہاں زحموں کی تاب نہ لا کر وہ چل بسے۔

ابھی اس واقعے کو 12 گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ نامعلوم افراد کا ایک گروپ بی جے پی کے دیگر پسماندہ طبقات کے شعبے کے ریاستی سیکریٹری رجنیت سری نواسن کے گھر میں داخل ہوا اور انہیں ہلاک کر دیا۔

وزیرِ اعلیٰ پنیاری وجین کے مطابق یہ گھناؤنے واقعات ریاست کے لیے خطرناک ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ عوام ان واقعات میں ملوث لوگوں کو شناخت کر کے الگ تھلگ کر دیں گے۔

الاپزا کے ضلعی پولیس افسر جی جے دیو نے کہا کہ پولیس اس بات کا پتا لگانے کی کوشش کر رہی ہے کہ کیا قتل کے یہ واقعات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور کیا یہ انتقامی کارروائی تھی؟

ان کے مطابق ان واقعات کے سلسلے میں کچھ لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ گزشتہ رات کے واقعہ کے بعد پولیس الرٹ پر ہے اور صورتِ حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔

ایس ڈی پی آئی کے جنرل سکریٹری پی کے عثمان نے الزام لگایا کہ الاپزا میں ایک میٹنگ کے بعد شان کو آر ایس ایس کے کارکنوں نے ہلاک کر دیا۔ وہ لوگ اس طرح ریاست میں اقلیتوں کو خوف زدہ کرنا چاہتے ہیں۔

بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے سری نواسن کی ہلاکت کو بزدلانہ فعل قرار دیا اور اس کے لیے پنیاری وجین کی حکومت کو ذمہ دار ٹھیرایا ہے۔

رپورٹس کے مطابق چند روز قبل کیرالہ کے علاقے پلکڈ میں آر ایس ایس کے ایک کارکن کی ہلاکت ہوئی تھی۔

جے پی نڈا نے مزید کہا کہ ایسی بزدلانہ کارروائیوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ان کے بقول وزیرِ اعلیٰ وجین کی قیادت میں کیرالہ ایک ایسی ریاست میں تبدیل ہو رہا ہے جہاں قانون کی حکمرانی نہیں ہے۔

اس سے قبل مرکزی حکومت کے ایک وزیر وی مرلی دھرن نے الزام عائد کیا کہ ہلاکت کی یہ کارروائی ان کے بقول مسلم دہشت گرد گروپ نے کی ہے۔ انہوں نے ریاستی حکومت کو بھی ذمہ دار قرار دیا۔

ادھر کیرالہ بی جے پی کے صدر کے سریندرن نے جنوب کی ایک تنظیم ’پاپولر فرنٹ آف انڈیا‘ (پی ایف آئی) پر رنجیت سری نواسن کی ہلاکت کا الزام عائد کیا ہے۔ خیال رہے کہ ایس ڈی پی آئی پی ایف آئی کی سیاسی شاخ ہے۔

کیرالہ میں اپوزیشن پارٹی کانگریس کے رکن اسمبلی اور قائدِ حزبِ اختلاف وی ڈی ستیشن نے کہا کہ قتل کے ان واقعات سے ہر شخص صدمے میں ہے۔ انہوں نے بھی ریاستی حکومت کو ذمہ دار ٹھیرایا۔

ایس ڈی پی آئی کے ایک سابق قومی سیکریٹری اور مسلم پولیٹیکل آف انڈیا کے قومی صدر ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کیرالہ میں گزشتہ 50 برسوں سے سیاسی قتل کے واقعات پیش آرہے ہیں۔

مبصرین کے مطابق ریاستی حکومت آر ایس ایس اور ایس ڈی پی آئی دونوں کو تشدد پسند جماعتیں سمجھتی ہے اس لیے وہ کوئی خاص کارروائی نہیں کرتی۔

تجزیہ کار ڈاکٹر تسلیم رحمانی کے مطابق سی پی ایم کی حکومت اس صورتِ حال پر قابو پانے کی کوئی کوشش نہیں کرتی۔ وہ چاہتی ہے کہ دونوں اس طرح لڑتے رہیں اور وہ حکومت کرتی رہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومت کی اس پالیسی کی وجہ سے وہاں آر ایس ایس کو طاقت حاصل ہو رہی ہے۔

ان کے مطابق فی الحال صورت حال کشیدہ ہے اور اندیشہ ہے کہ بی جے پی اور ایس ڈی پی آئی کے کارکن ان واقعات کے خلاف احتجاج کریں گے جس کی وجہ سے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG