رسائی کے لنکس

ایران: اٹھارہ اور انیس برس کے دو نوجوانوں کو سزائے موت کا سامنا


نیویارک سٹی میں اقوام متحدہ میں ایرانی مستقل مشن کے سامنے لوگ ایران میں پھانسیوں اور حراستوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔فوٹو ۔اے ایف پی
نیویارک سٹی میں اقوام متحدہ میں ایرانی مستقل مشن کے سامنے لوگ ایران میں پھانسیوں اور حراستوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔فوٹو ۔اے ایف پی

انسانی حقوق کے ایک گروپ نے پیر کے روز کہا کہ دو ایرانی نوجوانوں کو مظاہروں میں ملوث ہونے پر پھانسی کی سزاکا سامنا ہے۔

مہسا امینی کی موت سے شروع ہونے والے مظاہروں پر 23 سال کی عمر کے دو افراد کو پہلے ہی پھانسی دی جا چکی ہے لیکن انسانی حقوق کے گروپس کو خدشہ ہے کہ مزید درجنوں افراد کو پھانسی پر لٹکایا جا سکتا ہے کیونکہ ایران مظاہروں کو روکنے کے لیے سزائے موت کو ایک دھمکی آمیز حربے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

ایران احتجاج۔ فائل فوٹو
ایران احتجاج۔ فائل فوٹو

اوسلو میں قائم ایران ہیومن رائٹس (آئی ایچ آر) گروپ نے کہا کہ مظاہرے میں شامل مہدی محمدفرد کو ، جن کی عمر 18 سال ہے، صوبہ مازندران کے مغربی قصبے نوشہر میں ٹریفک پولیس کے کیبن کو آگ لگانے کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سزائے موت صوبائی دارالحکومت ساری کی ایک انقلابی عدالت نے اسے "زمین پر بدعنوانی" اور "خدا کے خلاف دشمنی" کے اہم الزامات میں مجرم قرار دینے کے بعد جاری کی تھی۔

ایران ہیومن رائٹس کے ڈائریکٹر محمود امیری مغدام نے اے ایف پی کو بتایا کہ دستیاب معلومات کی بنیاد پر، ابھی تک مظاہروں کی وجہ سے جن افراد کو سزائے موت سنائی گئی ہے، ان میں حمدفرد سب سے کم عمر شخص ہے۔

دریں اثنا، ایرانی عدلیہ کی میزان آن لائن نیوز ویب سائٹ نے کہا کہ ایک اور احتجاج کرنے والے، محمد بروغانی کی سزائے موت کو دسمبر میں سپریم کورٹ نے "خدا کے خلاف دشمنی" کے الزام میں برقرار رکھا تھا۔

ایران ہیومن رائٹس کے مطابق، محمد بروغانی کی عمر 19 سال ہے۔

بوروغانی پر ’ایک سیکورٹی اہل کار کو چاقو سے زخمی کرنے اور شہریوں میں دہشت پھیلانے‘ کے ساتھ ساتھ پاک دشت میں گورنر کے دفتر کو آگ لگانے کا الزام ہے، یہ شہر تہران سے 43 کلومیٹر (27 میل) جنوب مشرق میں واقع ہے۔

میزان آن لائن کی رپورٹ اس وقت سامنے آئی تھی جب کچھ رپورٹس میں بتایا گیا کہ پھانسی کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔

ایران ہیومن رائٹس کے ڈائریکٹر محمود امیری مقدم کا کہنا ہے کہ’’اسلامی جمہوریہ کو ، جو 109 دنوں کے بعد بھی مظاہروں پر قابو نہیں پا سکی ہے، اپنی بقا کے لیے لوگوں کو دھمکانے اور پھانسی کی ضرورت ہے۔‘‘

آئی ایچ آر نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ کم از کم 100 مظاہرین کو موت کی سزا سنائے جانے یاا الزام عائد کیے جانے کے بعد پھانسی کا خطرہ ہے۔

پہلی پھانسی پر بین الاقوامی سطح پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا اور حقوق کی تنظیمیں مزید پھانسیوں کو روکنے کے لیے ایران پر دباؤ بڑھانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

23 سالہ ماجدرضا رہنورد کو 12 دسمبر کو سیکیورٹی فورسز کے دو ارکان کو چاقو سے قتل کرنے کے الزام میں سرعام پھانسی دی گئی۔ اس سے چار دن پہلے، 23 سالہ محسن شکاری کو بھی سیکیورٹی فورسز کے ایک رکن کو زخمی کرنے کے جرم میں پھانسی دی گئی تھی۔

عدلیہ کا کہنا ہے کہ اس نے مظاہروں کے سلسلے میں مجموعی طور پر 11 افراد کو موت کی سزا سنائی ہے، جنہیں ایرانی حکام ’’فساد‘‘ قرار دیتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے حالیہ ہفتوں میں ایک کرد گلوکار سمیت ایسے تین مظاہرین کے خلاف دوبارہ مقدمہ چلانے کا حکم دیا تھا، جنہیں مظاہروں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر سزائے موت کا سامنا ہے۔

یہ رپورٹ ایجنسی فرانس پریس کی فراہم کردہ معلومات پر مبنی ہے۔

XS
SM
MD
LG