رسائی کے لنکس

ایران میں اخلاقی پولیس کی سرگرمیوں میں کمی، مظاہرین کو قابو کرنے لیے دیگر طریقوں کا استعمال


ایران کے حکمران شیعہ علما نے 1979 کے انقلاب کے بعد سے 9 سال سے زیادہ عمر کی خواتین اور لڑکیوں کو سر عام اپنے بال ڈھانپنے کا پابند کیا ہے۔
ایران کے حکمران شیعہ علما نے 1979 کے انقلاب کے بعد سے 9 سال سے زیادہ عمر کی خواتین اور لڑکیوں کو سر عام اپنے بال ڈھانپنے کا پابند کیا ہے۔

ایران سے ایسی رپورٹس مل رہی ہیں کہ احتجاج کے سبب اس کے مذہبی حکمرانوں نے اخلاقی پولیس کی سرگرمیوں کو محدود کر دیا ہے جس کی وجہ سے رواں سال ستمبر میں ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ تاہم مبصرین کا ماننا ہے کہ یہ اقدام عارضی ہے اور ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں کو دبانے کے لیے وقتی طور پر ایسا کیا گیا ہے۔

اوسلو میں قائم ’ایران ہیومن رائٹس گروپ‘ کے ڈائریکٹر محمود امیری مقدم نے وائس آف امریکہ کے ’فلیش پوائنٹ ایران پوڈ کاسٹ‘ میں دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ تہران جیسے بڑے شہروں میں ایران کی اخلاقی پولیس کی موجودگی میں کمی آئی ہے۔

وائس آف امریکہ کو جمعے کو بھیجی گئی ایک ای میل میں امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قائم انسانی حقوق کے گروپ عبدالرحمٰن بورومند سینٹر کی شریک بانی رویا بورومند کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ ایرانی دارالحکومت کے کئی علاقوں میں اخلاقی پولیس تعینات نہیں ہے۔

علاوہ ازیں ایران کی ویب سائٹ ‘ہم میہان’ نے رواں سال پانچ دسمبر کو شائع کردہ ایک مضمون میں ایک ایسی ہی تصویر پیش کی جس میں دکھایا گیا کہ اخلاقی پولیس کی سفید اور سبز رنگ کی دھاری دار گاڑیاں 16 ستمبر سے تہران کی سڑکوں پر نہیں دیکھی گئیں۔

خیال رہے کہ 16 ستمبر کو ہی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں 22 سالہ ایرانی کرد خاتون مہشا امینی کو حراست میں لیے جانے کے تین دنوں بعد ہلاک ہو گئی تھیں۔ جنہیں مبینہ طور پر سخت گیر اسلامی قوانین کے مطابق حجاب نہ لینے کے الزام میں اخلاقی پولیس نے حراست میں لیا تھا۔

امینی کی ہلاکت کے بعد ملک گیر مظاہرے شروع ہو گئے تھے جو کہ 1979 میں آنے والے اسلامی انقلاب کے بعد حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج سمجھے جا رہے ہیں۔

بورومند کے مطابق ایرانی فورسز کو ممکنہ طور پر اب ایسا کرنے کو کہا گیا ہے یا ممکنہ طور پر یہ حکمتِ عملی تہران میں ہو سکتی ہے کہ کسی لڑکی کو بغیر اسکاف کے چلتے ہوئے حراست میں لے لیا جائے جس سے وہاں موجود عوام پریشان ہوں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نہیں چاہتی کہ کسی کو گاڑی میں گھسیٹتے ہوئے ڈالا جا رہا ہو اور وہاں موجود لوگ اسے فلم بند کرنا شروع کر دیں۔ تاہم بورومند کے بقول یہ ضروری نہیں کہ سیکیورٹی فورسز مظاہرین کے سامنے بھی پسپا ہو جائیں۔

امیری مقدم کا کہنا ہے کہ ایران کے رہنماؤں نے ملک میں سب سے اہم مظاہروں پر قابو پانے کے لیے ان فورسز کی تعیناتی کو ترجیح دی ہے۔

ہم میہان میں شائع مضمون میں کہا گیا تھا کہ وزارا اسٹریٹ پر تہران کی اخلاقی پولیس کا عمارت میں داخلہ 16 ستمبر سے مکمل طور پر یا جزوی طور پر بند ہے۔

ایران کے حکمران شیعہ علما نے 1979 کے انقلاب کے بعد سے 9 سال سے زیادہ عمر کی خواتین اور لڑکیوں کو سر عام اپنے بال ڈھانپنے کا پابند کیا ہے جب کہ 2000 کی دہائی کے وسط میں ان قوانین کو نافذ کرنے کے لیے اخلاقی پولیس قائم کی گئی تھی۔

خیال رہے کہ ایران میں اخلاقی پولیس کی جارحیت میں گزشتہ برسوں کے دوران اتار چڑھاؤ دیکھا گیا۔ تاہم ایران کے انتہائی قدامت پسند صدر ابراہیم رئیسی کے دور میں جنہوں نے 2021 میں عہدہ سنبھالا، اخلاقی پولیس کی جارحیت میں قدرے زیادہ اضافہ رپورٹ کیا گیا۔

اخلاقی پولیس کے ہاتھوں امینی کے ساتھ مبینہ پر تشدد سلوک کیے جانے کے بعد ملک میں غم و غصہ پایا جاتا ہے جس کے بعد سے حکومت پر اخلاقی پولیس کی سرگرمیوں کو کم کرنے کا دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG