شدت پسند گروپ داعش اور اس کے حامیوں کو انٹرنیٹ پر شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ سماجی رابطوں کی ایک معروف سائیٹ "ٹوئٹر" نے اس کے بہت سے اکاؤنٹس کو غیر فعال کر دیا ہے۔
یہ بات دہشت گردی سے متعلق امور کے ماہر اور داعش کے بارے میں عنقریب شائع ہونے والی ایک کتاب کے مصنف جے ایم برجر نے بتائی ہے۔
برجر نے رواں ہفتے امریکی ایوان نمائندگان کی کمیٹی برائے خارجہ امور کو بتایا کہ داعش کے متحرک ترین حامیوں کو ٹوئٹر اکاؤنٹس کی معطلی کا سامنا ہے اور یہ گروپ اس اقدام کو "تباہ کن" قرار دے رہا ہے۔
ان کا یہ بیان داعش کی طرف سے ٹوئٹر کے استعمال سے متعلق ایک تحقیقی مکالے پر مبنی ہے جو کہ مارچ میں شائع کیا جائے گا۔
برجر کا کہنا تھا کہ ٹوئٹر نے ابتدائی طور پر اس بارے میں کچھ نرمی سے کام لیا کہ کون سا مواد دہشت گردی کے حمایت کے زمرے میں آتا ہے اور سائٹ پر کیا شائع ہونا چاہیے۔
وائس آف امریکہ نے ٹوئٹر سے یہ جاننے کے لیے کہ اب تک کتنے اکاؤنٹس معطل کیے گئے ہیں، رابطہ کیا لیکن اس کی طرف سے تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
لیکن برجر کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال شدت پسندوں کی طرف سے امریکی صحافی جیمز فولی کا سرقلم کیے جانے کے بعد سے ٹوئٹر نے داعش کے خلاف "زیادہ سخت رویہ" اپناتے ہوئے اس کے ہزاروں اکاؤنٹس بند کر دیے۔
تحقیقی دستاویزات کے مطابق 2014ء کے اواخر تک داعش کے حامیوں کے لگ بھگ 45 ہزار ٹوئٹر اکاؤنٹس بند کیے گئے۔ برجر کے بقول انھوں نے ایسے 800 اکاؤنٹس کا پتا لگایا ہے جو داعش کے مصدقہ حامیوں کے تھے اور اس کے علاوہ 18 ہزار ایسے ہیں جو کہ ممکنہ طور پر اس شدت پسند گروپ کے حامی ہوسکتے ہیں۔
برجر نے مزید بتایا کہ داعش کے حامیوں میں سے 73 فیصد اکاؤنٹس ایسے تھے جن پر 500 سے کم لوگ موجود تھے اور کسی اکاؤنٹ پر بھی فالو کرنے والوں کی تعداد پچاس ہزار سے زائد نہیں تھی، جب کہ 2014ء کے اوائل میں اس گروپ کے بعض ٹوئٹر اکاونٹس پر فالو کرنے والوں کی تعداد 80 ہزار سے زائد بھی دیکھی گئی۔
انھوں نے بتایا کہ ٹوئٹر اکاؤنٹس کی معطلی کی اس تازہ کارروائی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ داعش کی آن لائن لوگوں تک رسائی محدود ہو جائے گی اور وہاں لوگوں کو اپنی جانب راغب کرنا آسان نہیں رہے گا۔