ترکی نے عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے خلاف فضائی کارروائیاں جاری رکھے گا۔ حال ہی میں ترکی نے کردوں اور داعش کے شدت پسندوں کے خلاف دو جہتی جنگ کا اعلان کیا تھا مگر ترک عوام کرد تنظیم کے خلاف کارروائیوں کے بارے میں تذبذب کا شکار ہیں۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ (اے کے) پارٹی کے مطابق ترکی کو داعش اور کرد علیحدگی پسندوں کی جانب سے دہشت گردی کا دُہرا خطرہ درپیش ہے۔ مگر گزشتہ چند روز کے دوران ہونے والی بمباری کا ہدف عراق میں کرد باغیوں کے ٹھکانے تھے۔
تین دہائیوں سے پی کے کے کرد اقلیت کے حقوق کے لیے جنگ میں مصروف ہے۔ تاہم ترکی میں کیے گئے ایک حالیہ جائزے کے مطابق ترک عوام کی اکثریت "جہادیوں" کو ملکی سرحد کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتی ہے۔
ترکی کے روزنامہ ’جمہوریت‘ اور ’ال مانیٹر ویب سائٹ‘ کے سیاسی کالم نگار سمیح عدیز نے کہا ہے کہ ترک عوام کی اکثریت 'پی کے کے' کے خلاف آپریشن کے بارے میں شکوک و شبہات رکھتی ہے۔
’’گزشتہ دو تین سالوں سے حکومت اس تنظیم کے ساتھ امن مذاکرات کر رہی تھی۔ اپنے سیاسی مفادات کے لیے مذاکرات کے عمل کو ختم کرنے سے حکومت کے عزائم پر شکوک و شبہات نے جنم لیا ہے۔‘‘
اندرونی سیاست
صدر اردوان کی اے کے پارٹی پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ پی کے کے پر کریک ڈاؤں کو قوم پرستوں کے ووٹ حاصل کرنے اور کردوں کی حامی ایچ ڈی پی پارٹی کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے، جس کی حالیہ انتخابات میں کامیابی سے اے کے پارٹی کی ایوان میں اکثریت ختم ہو گئی تھی۔
ہفتے کو معروف عوامی شخصیات کے ایک گروپ، جسے گزشتہ سال صدر اردوان نے امن کے عمل کو فروغ دینے پر مامور کیا تھا، نے حکومت سے جنگ بندی اور امن کی کوششوں کو بحال کرنے پر زور دیا ہے۔
استنبول کی سلیمان شاہ یونیورسٹی سے وابستہ ماہر سیاسیات چنگیز اختر نے کہا کہ عوام امن کے عمل کی بحالی چاہتے ہیں مگر ان کی آوازوں کو دبایا جا رہا ہے۔
’’لوگ 26 جولائی کو ایک بڑے امن مارچ کی تیاری کر رہے تھے مگر اسے منع کر دیا گیا۔ یہ یقیناً ایک بہت بڑا مارچ ہوتا اور اس میں ترک عوام کے مختلف طبقات شرکت کرتے۔ حکام نے اسے اس لیے منع کیا گیا کیونکہ وہ اس تحریک کے حجم سے خوفزدہ تھے۔‘‘
حال ہی میں کی گئی قانون سازی کے ذریعے سکیورٹی فورسز کو مظاہرین کے خلاف گولہ بارود استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ صدر اردوان نے خبردار کیا ہے کہ کسی بھی غیر قانونی مظاہرے کو روکنے کے لیے وہ اپنے اختیارات کا مکمل استعمال کریں گے۔
مگر کالم نگار عدیز نے کہا ہے کہ حکمران جماعت اے کے کے کرد تنظیم اور کرد سیاسی رہنماؤں کے خلاف بیانات کے باوجود عوام کی اکثریت اس تنازع کے منفی نتائج کے بارے میں تشویش رکھتی ہے۔