رسائی کے لنکس

ترکی کے کرد تنظیم پر حملے، داعش کے خلاف جنگ کے لیے مضمرات


ترک فضائیہ کا کوگر ہیلی کاپٹر
ترک فضائیہ کا کوگر ہیلی کاپٹر

امریکہ کے اتحادی ترکی میں داعش کی طرف سے خود کش حملوں کا سلسلہ بھی وہاں کے حکام کو قائل کرنے میں ناکام رہا کہ اس گروپ کو کمزور کر کے اسے شکست دینا اس کی پہلی ترجیح ہونا چاہیئے۔

ترکی کی داعش کے خلاف فوجی مہم میں شرکت مگر ساتھ ہی کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) سے وابستہ کرد جنگجوؤں پر بمباری نے علاقے میں امریکہ کی کوششوں کی راہ میں ایک اہم مشکل کو اجاگر کیا ہے۔

ایک دفاعی عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’ہمیں طرفین کو اس نقطے پر لانے کی ضرورت ہے کہ داعش ہمارا مرکزی دشمن ہے۔‘‘

مگر ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا۔ امریکہ مختلف گروپوں کے کمزور اشترک کو ایک مربوط اتحاد میں تبدیل کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ خدشہ ہے کہ ترکی اور دیگر گروپوں کے علیحدہ ایجنڈوں پر کام کرنے سے داعش کو فائدہ پہنچے گا۔

امریکہ کے اتحادی ترکی میں داعش کی طرف سے خود کش حملوں کا سلسلہ بھی وہاں کے حکام کو قائل کرنے میں ناکام رہا کہ اس گروپ کو کمزور کر کے اسے شکست دینا اس کی پہلی ترجیح ہونا چاہیئے۔

اس دفاعی عہدیدار نے کہا کہ ’’وہ اس جانب بڑھ رہے ہیں، مگر مجھے نہیں معلوم کہ وہ ابھی اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ نہیں۔‘‘

اس وقت امریکی اور ترک حکام ایک معاہدے کی تفصیلات طے کرنے میں مصروف ہیں جو امریکی اتحاد کو داعش کے خلاف بمباری کے لیے ترکی کے فضائی اڈے استعمال کرنے کی اجازت دے گا۔ ایک عہدیدار نے ان حملوں کے آغاز کو’’ہنوذ دلی دور است‘‘ یعنی اب بھی بہت دور قرار دیا۔

دریں اثنا، ان خدشات کا اظہار کیا گیا ہے کہ ترکی کی کردستان ورکرز پارٹی کے خلاف فضائی کارروائیوں سے شام اور عراق میں اس کی داعش کے خلاف زمینی جنگ کی صلاحیت کمزور ہوں گی۔

کردستان کمیونسٹ یونین کے ترجمان زوگراس ہیوا نے کہا ہے کہ ’’اس سے داعش کے خلاف ہماری جہدوجہد پر یقیناً اثر پڑے گا، کیونکہ اب داعش کو ہمارے خلاف ترکی کی فضائی مدد حاصل ہے۔‘‘

کردستان کمیونسٹ یونین، پی کے کے سمیت کئی کرد گروپوں کی نمائندہ تنظیم ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مختلف کرد جنگجو گروپوں کو علیحدہ کرنے والی لکیر واضح نہیں۔

ہیوا نے کہا کہ پی کے کے جنگجوؤں نے پیش مرگہ کرد جنگجوؤں کے ساتھ مل کر کرکوک، اربیل، کوبانی اور سنجار میں داعش کا مقابلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’’ترکی نے داعش کی آڑ میں کردوں کے ساتھ براہ راست لڑنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اس کے اصل عزائم ظاہر نہ ہوں۔‘‘

اب تک واشنگٹن کے حکام نے ترکی کی کارروائیوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ، نیٹو اور دیگر مغربی ممالک نے پی کے کے کو ایک دہشتگرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔

اوباما انتظامیہ کے عہدیداروں نے رواں ہفتے کہا تھا کہ ’’اگر پی کے کے نے ترکی پر حملوں کا سلسلہ شروع نہ کیا ہوتا تو ترکی پی کے کے پر حملہ نہ کرتا۔ ان کارروائیوں کو شروع کرنے کی ذمہ داری ترک سرزمین پر پی کے کے کی جانب سے حملوں پر عائد ہوتی ہے جن میں متعدد ترک پولیس اہلکار اور فوجی مارے گیے، اور ہم نے اس کے بعد مزید ایسے حملے دیکھے ہیں۔‘‘

تاہم، امریکہ داعش کو کمزور کرکے شکست دینے کی کوشش میں اس طرح کے مسائل سے بچنا چاہتا ہے۔

امریکی دفاعی عہدیدار نے کہا کہ ’’ہمیں اپنی کوششیں مربوط بنانے کی ضرورت ہے۔‘‘

XS
SM
MD
LG