اسلام آباد —
پاکستان کے وزیرِ اعظم نواز شریف دوطرفہ تعاون کو وسعت دینے سے متعلق اُمور پر بات چیت کے لیے پیر سے ترکی کے تین روزہ دورے کا آغاز کر رہے ہیں۔
آُنھیں اس دورے کی دعوت ترک وزیر اعظم رجب طیب اردگان نے دی تھی۔
وزارتِ خارجہ کے مطابق دورے میں نواز شریف صدر عبداللہ گل سمیت ترکی کی اعلیٰ سیاسی قیادت سے ملاقاتوں میں باہمی دلچسپی کے اُمور پر تفصیلی تبادلہ خیال کریں گے۔
ترک قائدین سے ملاقاتوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی و اقتصادی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے اور علاقائی اور عالمی صورت حال خصوصاً مشرق وسطیٰ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر بات چیت کی جائے گی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جاری مفاہمتی عمل میں ترکی کا تعاون بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے اور پاکستانی وزیر اعظم کے دورے میں اس تناظر میں بات چیت مفید ثابت ہوسکتی ہے۔
بین الاقوامی امور کے ماہر اور تجزیہ کار نجم رفیق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ترکی افغانستان اور پاکستان کے درمیان بات چیت میں ایک مصالحتی کردار ادا کر سکتا ہے۔
’’اب افغانستان سے امریکی اور یورپی افواج کا انخلاء شروع ہونے والا ہے اور اس حوالے سے پاکستان سمجھتا ہے کہ ترکی بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے ... طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے قطر پراسس جو ناکام ہو گیا تھا، تو سوچا جا رہا ہے کہ اب یہ دفتر ترکی میں قائم کیا جائے۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ ترکی اس حوالے سے بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔‘‘
پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری نے گزشتہ ہفتے صحافیوں سے گفتگو میں وزیرِ اعظم نواز شریف کے دورہِ ترکی میں افغان طالبان کے نئے سیاسی دفتر کے قیام سے متعلق ممکنہ بات چیت کی اطلاعات کو قیاس آرائی قرار دیا تھا۔
مزید برآں وزارتِ خارجہ سے جاری ہوئے بیان کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف ترکی کے تاجروں، صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کے نمائندہ وفود سے بھی ملاقاتیں کریں گے جس میں انھیں مختلف شعبوں خصوصاً توانائی، زراعت اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دیں گے۔
دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی و تجارتی شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لیے متعدد سمجھوتوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط بھی متوقع ہیں۔
آُنھیں اس دورے کی دعوت ترک وزیر اعظم رجب طیب اردگان نے دی تھی۔
وزارتِ خارجہ کے مطابق دورے میں نواز شریف صدر عبداللہ گل سمیت ترکی کی اعلیٰ سیاسی قیادت سے ملاقاتوں میں باہمی دلچسپی کے اُمور پر تفصیلی تبادلہ خیال کریں گے۔
ترک قائدین سے ملاقاتوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی و اقتصادی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے اور علاقائی اور عالمی صورت حال خصوصاً مشرق وسطیٰ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر بات چیت کی جائے گی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جاری مفاہمتی عمل میں ترکی کا تعاون بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے اور پاکستانی وزیر اعظم کے دورے میں اس تناظر میں بات چیت مفید ثابت ہوسکتی ہے۔
بین الاقوامی امور کے ماہر اور تجزیہ کار نجم رفیق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ترکی افغانستان اور پاکستان کے درمیان بات چیت میں ایک مصالحتی کردار ادا کر سکتا ہے۔
’’اب افغانستان سے امریکی اور یورپی افواج کا انخلاء شروع ہونے والا ہے اور اس حوالے سے پاکستان سمجھتا ہے کہ ترکی بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے ... طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے قطر پراسس جو ناکام ہو گیا تھا، تو سوچا جا رہا ہے کہ اب یہ دفتر ترکی میں قائم کیا جائے۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ ترکی اس حوالے سے بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔‘‘
پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری نے گزشتہ ہفتے صحافیوں سے گفتگو میں وزیرِ اعظم نواز شریف کے دورہِ ترکی میں افغان طالبان کے نئے سیاسی دفتر کے قیام سے متعلق ممکنہ بات چیت کی اطلاعات کو قیاس آرائی قرار دیا تھا۔
مزید برآں وزارتِ خارجہ سے جاری ہوئے بیان کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف ترکی کے تاجروں، صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کے نمائندہ وفود سے بھی ملاقاتیں کریں گے جس میں انھیں مختلف شعبوں خصوصاً توانائی، زراعت اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دیں گے۔
دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی و تجارتی شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لیے متعدد سمجھوتوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط بھی متوقع ہیں۔