نیٹو کی سربراہ کانفرنس شروع ہونے میں چند ہی روز باقی رہ گئے تھے جب یورپی کمیشن کے صدر جوز مانوئیل بارروسو اور یورپی کونسل کے سربراہ ہرمن وین رومپوئے کو بالآخر کانفرنس میں حاضری کا سرکاری دعوت نامہ ملا ۔
تاخیر کی وجہ ترکی کے یہ اعتراضات تھے کہ اس کی نظر میں نیٹو اور یورپی یونین کے عہدے داروں کے ساتھ ایک جیسا برتاؤ نہیں کیا جاتا ۔ ترک وزارتِ خارجہ کے ترجمان Selcuk Unal وضاحت کرتےہیں’’بہت سے ملکوں میں اس قسم کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ یورپی یونین کے دو اعلیٰ عہدے داروں کو تو مدعو کیا گیا ہے لیکن نیٹو کے سکریٹری جنرل کو کو دعوت نامہ جاری نہیں کیا گیا ۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ دوسری بین الاقوامی اور علاقائی تنظیمیں جن کا نیٹو سے واسطہ پڑا ہے، کیوں مدعو نہیں کی گئی ہیں۔‘‘
ترک ترجمان Unal کے مطابق، یہ تعطل اس وقت ختم ہوا جب یہ بات تسلیم کر لی گئی کہ یورپی یونین کے لیڈر افتتاحی تقریب میں تو شرکت کریں گے، لیکن اس کے بعد انہیں صرف چند ہی اجلاسوں میں آنے کی اجازت ہوگی جن میں افغانستان سے متعلق اجلاس بھی شامل ہوں گے ۔
ترکی کے سابق اعلیٰ سفارتکار Sinan Ulgen کہتے ہیں کہ سربراہ اجلاس سے پہلے ترکی نے سفارتی سطح پر جو سخت موقف اختیار کیا ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے ترکی کی یورپی یونین کی رکنیت کی کوشش کھٹائی میں پڑی ہوئی ہے ۔
’’یہ اس بات کا اظہار ہے کہ یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کی کوشش کے حوالے سے کتنی مایوسی، ناراضگی اور منافرت پیدا ہوئی ہے، اور اس کی وجہ سے یہ منفی ماحول قائم ہو گیا ہے جس میں ترکی نیٹو کے ساتھ اپنے تعلق کو یورپی یونین پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کر رہا ہے ۔ بہت سے طریقوں سے، ہم دیکھ رہے ہیں کہ ترکی کی خارجہ پالیسی زیادہ مضبوط اور جاندار ہو گئی ہے۔‘‘
سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ ترکی کا یہ اعتماد کہ وہ یورپی یونین سے ٹکر لینے کو تیار ہے، علاقے میں اسکی روز افزوں اہمیت کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ۔ ترکی سرحدیں شام، ایران اور عراق سے ملتی ہیں ۔ اور اس کے وزیرِ اعظم ، رجب طیب اردوان کی شخصیت کا سحر اور ان کی مقبولیت پوری عرب دنیا کے ملکوں میں پھیل گئی ہے جہاں حال ہی میں عوامی تحریکوں کا ریلا آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی امریکہ کا روز بروز زیادہ اہم حلیف بن گیا ہے ۔
استنبول کی Bahcesehir University میں بین الاقوامی امور کے ماہر، چنگیز اختر کہتےہیں انقرہ کو واشنگٹن کی حمایت کی وجہ سے ایک اہم اسٹریٹجک اہمیت حاصل ہو گئی ہے ۔
’’مشرقِ وسطیٰ ، بحرِ روم بلکہ یورپ تک کے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں ترکی کو نسبتاً برتری حاصل ہے ۔ حکومت اس صورتِ حال سے پورا پورا فائدہ اٹھا رہی ہے، اور اسے اپنے ایجنڈے کو آخری حد تک لے جانے کے لیے استعمال کر رہی ہے ۔‘‘
اس مہینے امریکہ کی کونسل آن فارن ریلیشنز کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ترکی کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے نتیجے میں، امریکہ ترکی کے ساتھ زیادہ مضبوط تعلقات قائم کر رہا ہے ۔ ترکی کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان Unal نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ ان کے ملک کی پالیسی میں اپنی بات منوانے کا عنصر زیادہ شدت سے استعمال کیا جا رہا ہے ۔’’نیٹو میں ترکی جیسے ملک جو یورپی یونین کے رکن نہیں ہیں لیکن جو نیٹو کے رکن ہیں، انہیں اپنے جائز حقوق اور مفادات کا دفاع کرنا پڑتا ہے جو نیٹو کی رکنیت کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔‘‘
اب جب کہ ترکی کوسووو سے افغانستان تک زیادہ فعال کردار ادا کر رہا ہے، سیاسی مبصرین انتباہ کرتے ہیں کہ انقرہ اور برسلز میں کشیدگیوں کا امکان موجود ہے جس کا اظہار نیٹو اتحاد کے اندر ہو سکتا ہے ۔