ترکی کی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے۔ دس برس قبل ترکی کا بجٹ خسارہ16فی صداور افراطِ زر 72فی صد تھا۔ جب کہ اِس سال ملک کی مجموعی قومی پیداوارمیں 11.4فی صد کا اضافہ ہوا ہے، جو چین کے بعددنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
یہ سب کچھ ایک ایسے وقت ہورہا ہے جب باقی دنیا، جس میں یورپی یونین بھی شامل ہے، معاشی مسائل میں گھری ہوئی ہے اور اس سے باہر نکلنے کی سرتوڑکوششیں کررہی ہے۔ یاد رہے کہ یورپی یونین کی اس سال کی مجموعی قومی پیداوار صرف ایک فی صد ہے۔
نیو یارک ٹائمز میں اقتصادیات پر اپنے حالیہ تجزیاتی مضمون میں لینڈن تھامس کا کہنا ہے کہ آج کا ترکی ایک اُبھرتی ہوئی معاشی طاقت ہے جہاں بیشمار بین الاقوامی کمپنیاں ایک دوسرے سے مسابقت کررہی ہیں۔ جس سے اس ملک کے کاروبار منافع بخش بن رہے ہیں ۔ ان کی رسائی روس اور مشرقِ وسطیٰ کی منڈیوں تک پھیل گئی ہے ، جہاں سے ترکی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کررہاہے۔
تجزیہ کار تھامس کا کہنا ہے کہ اب ترکی یورپی یونین میں شامل ہونے والی قطار میں نہیں ہے، بلکہ ایک ترک سرمایہ کار کے بقول اب وہ اپنے مضبوط پاؤں پر کھڑا ہے۔
کئی عشروں سے ترکی کو باور کرایا جاتارہا تھا کہ وہ 27ممالک کے یورپی یونین میں شامل ہونے کے لیےموزوں معاشی اہلیت نہیں رکھتا۔ ترکی نے اب اس اعتراض کو غلط ثابت کر دکھایا ہے۔
لینڈن کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم رجب طیب اردگان کی ‘انصاف اور ترقی پارٹی’ نے، جس میں کاروباری لوگ اور تاجر شامل ہیں، سماجی قدامت پسند ی کو مالیاتی پالیسوں سے ملاکر اس ملک میں ایک ابھرتی ہوئی سیاسی تحریک کی بنیادڈالی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ترکی کی برآمدات میں پچھلے سال کے مقابلے میں اِس سال 13فی صد اضافہ ہوا ہے۔
تاہم، لینڈن کہتے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ نئی جارحانہ پالیسی ، ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک کے خیالات سے مطابقت نہیں رکھتی۔ وہ کہتے ہیں کہ غزہ کے لیے امداد ی بحری بیڑے پر اسرائیلی کمانڈوز کے حملے کے مسئلے پرمسٹر اردگان کے اسرائیل کے خلاف سخت بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی نہ صرف یورپی یونین میں شرکت کی اپنی کوششوں سے الگ ہو چکا ہے بلکہ وہ مغرب کے اسلامی حریفوں کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھا رہاہے۔