امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت سمیت دیگر ممالک کو بھی داعش کے خلاف جنگ لڑنا ہو گی۔
وائٹ ہاؤس میں بدھ کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے عراق میں داعش کے دوبارہ اُبھرنے کے سوال پر کہا کہ امریکی فورسز نے داعش کا سو فی صد خاتمہ کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سات ہزار میل دور ہونے کے باجود امریکہ افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہا ہے، لیکن بھارت اور پاکستان قریب ہوتے ہوئے کچھ بھی نہیں کر رہے۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہم نے داعش کو ختم کیا۔ لیکن، اب باقی ملکوں کو یہ لڑائی لڑنا ہے۔
صدر ٹرمپ کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حال ہی میں افغانستان میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور ان میں سے بعض واقعات کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی ہے۔
صدر ٹرمپ نے واضح کیا کہ امریکہ مزید 19 سال افغان جنگ لڑنے میں صرف نہیں کرنا چاہتا۔ کسی خاص موقع پر روس، افغانستان، ایران، عراق اور ترکی کو اپنی جنگیں خود لڑنا ہوں گی۔
امریکی صدر نے صحافیوں کو یہ بھی بتایا کہ اِس وقت داعش کے کئی ہزار جنگجو امریکی قید میں ہیں، اگر یورپ داعش کے شدت پسندوں کو قیدی بنا کر نہیں رکھے گا تو وہ اُنہیں آزاد کر کے انہی ملکوں میں واپس بھیج دیں گے جہاں سے وہ آئے تھے۔ جن میں فرانس اور جرمنی بھی شامل ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ امریکہ ان قیدیوں کو گوانتانامو بے میں نہیں رکھے گا اور ان پر کسی بھی قسم کے اخراجات برداشت نہیں کرنا چاہتا۔
یاد رہے کہ داعش نے افغانستان میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے اس خطے میں اپنی تنظیم کو 'دولت اسلامیہ خراسان' کا نام دیا تھا۔ یہ شدت پسند تنظیم 2014 میں پہلی بار افغانستان میں سامنے آئی تھی۔ اس کے بعد اس نے ملک کے شمالی علاقوں میں اپنے مضبوط گڑھ بنالیے تھے۔
افغان حکام کا مؤقف ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے معاہدے کی صورت میں بعض جنگجو داعش میں شامل ہو سکتے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے صدر ٹرمپ کے بیان پر کہا کہ وہ امریکی صدر کے بیان پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔
جمعرات کو ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران انہوں نے کہا کہ پاکستان میں داعش کی کوئی منظم موجودگی نہیں ہے۔ تاہم، پاکستان کو اپنے ہمسایہ ملک (افغانستان) میں داعش کے اُبھرنے پر تشویش ہے۔
افغانستان میں حالیہ چند روز کے دوران دہشت گردی کی کارروائیوں میں ایسے وقت اضافہ ہوا ہے جب امریکہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات اہم مرحلے پر پہنچ چکے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے بقول، افغانستان میں بڑھتے ہوئے حملے خطے کے لیے بھی باعث تشویش ہیں۔ شدت پسند گروہ خطے کے دیگر ملکوں بشمول پاکستان، چین، ایران اور روس کے لیے بھی خطرہ ہیں جس سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔