امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ شمالی کوریا کی جانب سے امریکہ پر ایٹمی حملے کا خطرہ ٹل گیا ہے اور اب امریکی "چین کی نیند سو سکتے ہیں۔"
بدھ کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ 'ٹوئٹر' پر اپنے سلسلہ وار پیغامات میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ جس دن انہوں نے منصبِ صدارت سنبھالا تھا اس کے مقابلے میں لوگ آج خود کو کہیں زیادہ محفوظ سمجھ سکتے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے منگل کو سنگاپور میں شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان سے ملاقات کی تھی جس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے کے مطابق کم جونگ ان نے جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
البتہ اعلامیے میں یہ واضح نہیں کہ شمالی کوریا کے جوہری ہتھیار کب اور کیسے تلف کیے جائیں گے اور اس بات کی تصدیق کون کرے گا کہ آیا واقعی شمالی کوریا اپنے وعدے پر عمل کر رہا ہے۔
سربراہی ملاقات کے بعد بدھ کو سنگاپور سے امریکہ پہنچنے پر صدر ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹس میں اپنے دورے کو "طویل" قرار دیتے ہوئے کہا کہ کم جونگ ان سے ملاقات ایک بہت ہی مثبت اور دلچسپ تجربہ تھا۔
صدر کے بقول دونوں ممالک نیک نیتی سے مذاکرات کر رہے ہیں اور جب تک وہ یہ مذاکرات کرتے رہیں گے امریکہ جنگی مشقیں نہ کرکے بھاری رقم بچائے گا۔
صدر ٹرمپ نے کم جونگ ان سے ملاقات کے بعد جنوبی کوریا اور امریکہ کی مشترکہ فوجی مشقیں معطل کرنے کا اعلان کرکے کئی حلقوں کو حیران کردیا تھا۔
گو کہ شمالی کوریا ان مشقوں کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے ان کی سخت مخالفت کرتا رہا ہے، لیکن صدر ٹرمپ نے مشقیں منسوخ کرنے کی وجہ یہ بتائی تھی کہ اس سے امریکہ کو بہت "بچت" ہوگی۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ کم جونگ ان نے سربراہی ملاقات کے اعلامیے میں امریکہ کو کوئی واضح یقین دہانی نہیں کرائی اور نہ ہی جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے نظام الاوقات کے بارے میں کوئی وعدہ کیا ہے۔
اس کے برعکس صدر ٹرمپ نے جنوبی کوریا جیسے اہم اتحادی ملک کے ساتھ فوجی مشقیں معطل کرکے پیانگ یانگ حکومت کو ایک بڑا ریلیف دے دیا ہے جس کے عوض امریکہ کو شمالی کوریا سے کچھ نہیں ملا۔
مشترکہ اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ امریکہ شمالی کوریا کی سلامتی کے تحفظ کی ضمانت دے گا لیکن اعلامیے کی اس شق کی بھی صدر ٹرمپ نے تاحال کوئی وضاحت نہیں کی ہے کہ یہ ضمانت کس طرح کی اور کس بات کی ہوگی۔
لیکن صدر ٹرمپ مسلسل سربراہی ملاقات کو "انتہائی کامیاب" اور اعلامیے کو "ایک بڑا اور تاریخی قدم" قرار دے رہے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ کم جونگ ان کی حکومت معاہدے پر عمل درآمد کا فوری آغاز کرے گی۔
بدھ کو اپنے ایک اور ٹوئٹ میں امریکی صدر نے کہاکہ ان کے صدر بننےسے قبل لوگ یہ سمجھ رہے کہ ہم شمالی کوریا سے جنگ کی طرف جارہے ہیں اور صدر اوباما نے کہا تھا کہ شمالی کوریا ہمارا سب سے بڑا اور خطرناک مسئلہ ہے۔
لیکن صدر ٹرمپ کے بقول "اب ایسا نہیں ہے۔ آج کی رات چین کی نیند سوئیے!"
شمالی کوریا کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے بدھ کو ملک کے سربراہ کم جونگ ان سے منسوب ایک بیان جاری کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ شمالی کوریا اور امریکہ فوری طور پر ایک دوسرے کے خلاف معاندانہ فوجی کارروائیاں بند کرنے کا "بڑا قدم" اٹھائیں۔
کم جونگ ان نے کہا تھا کہ اگر امریکہ اعتماد سازی کے حقیقی اقدامات کرتا ہے تو پھر وہ بھی اگلے مرحلے میں خیرسگالی کے ویسے ہی مزید اقدامات کریں گے۔
رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ سربراہی ملاقات کے دوران کم جونگ ان نے صدر ٹرمپ کو پیانگ یانگ کے دورے کی دعوت بھی دی تھی جسے صدر نے قبول کرلیا تھا۔
منگل کو ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ انہوں نے کم جونگ ان کو وائٹ ہاؤس کے دورے کی دعوت دی ہے جس کے لیے "مناسب وقت" کا تعین بعد میں کیا جائے گا۔ تاہم صدر ٹرمپ نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا تھا کہ انہیں بھی شمالی کوریا کے دورے کی دعوت ملی ہے۔