صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ شمالی کوریا کے جوہری عزائم کے بارے میں امریکہ ’’کچھ بھی سوچ سکتا ہے‘‘، اور مزید کہا کہ ’’امید ہے اس بارے میں خیال درست ہو‘‘۔
صدر جنوبی کوریا کی جانب سےمنگل کے روز دیے گئے بیان پر اپنا رد عمل ظاہر کر رہے تھے۔ جنوبی کوریا نے کہا ہے کہ اپنے جوہری ہتھیار تلف کرنے کےحوالے سے شمالی کوریا امریکہ کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرنے پر تیار ہے۔ برعکس اس کے، اس سے پیش تر شمالی کوریا اپنے نیوکلیئر ہتھیاروں کی بربادی لانے کی طاقت سے ڈراتا رہا ہے، جب کہ بیلسٹک میزائل تشکیل دینے کا ذکر کرتا آیا ہے۔
ٹرمپ نے اوول آفس میں اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’ہم اس صورت حال کو جاری رکھنے کی اجازت نہیں دے سکتے‘‘۔ صدر نے دورے پر آئے ہوئےسویڈن کے وزیر اعظم استفار لوفن کی میزبانی کے فرائض انجام دیے۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’’دنیا کےلیے یہ ایک بڑی بات ہوگی‘‘ اگر جنوبی اور شمالی کوریا کے درمیان جاری موجودہ مکالمہ جاری رہتا ہے، جس سے جزیرہ نما کوریا میں تناؤ میں کمی لانے میں مدد ملتی ہے‘‘۔
اُنھوں نے اِس بات کا بھی انتباہ دیا کہ ہو سکتا ہے کہ بین الکوریائی بات چیت ’’چل پڑے یا ایسا نہ ہو پائے‘‘۔ اُنھوں نے اس بات کی جانب توجہ دلائی کہ ’’یہ انتہائی مشکل صورت حال ہے‘‘۔
ٹرمپ نے ایک بار پھر دونوں جماعتوں کے دور کی گذشتہ دو امریکی حکومتوں پر الزام لگایا کہ اُنھوں نے شمالی کوریا کو بڑی تباہی پھیلانے کی صلاحیت کے حامل ہتھیار تشکیل دینے کی اجازت دی۔ بقول اُن کے، ’’ہم نے ا<س صورت حال کا مقابلہ کیا ہے۔ ہم اسے درست طریقے سے نمٹ رہے ہیں‘‘۔
یہ معلوم کرنے پر آیا وہ شمالی کوریا کے راہنما کِم جونگ اُن سے ملاقات پر رضامند ہوں گے، ٹرمپ نے کہا کہ ’’ہم دیکھیں گے، کیا ہوتا ہے‘‘۔