جنوبی کوریا نے امریکہ کے اشتراک سے شمالی کوریا کے ساتھ بات چیت کے راستے تلاش کرنے میں پیش رفت کی ہے تاہم شمالی کوریا کی طرف سے جوہری پروگرام ختم کرنے کے معاملے پر تعطل برقرار ہے۔
جنوبی کوریا میں ہونے والے سرمائی اولمپکس جزیرہ نما کوریا میں کشیدگی کو کم کرنے کے حوالے سے سفارتی پیش رفت کے ساتھ اختتام پزیر ہو گئے ہیں۔
اتوار کے روز اختتامی تقریب میں بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کے صدر ٹھامس بیک نے جنوبی اور شمالی کوریا کی طرف سے تعلقات میں بہتری کیلئے سرمائی اولمپکس کے موقع سے فائدہ اُٹھانے کے اقدام کو سراہا۔ اس موقع پر اُنہوں نے دونوں کوریاؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’’آپ دونوں نے امن کے مستقبل کے بارے میں اپنے عزم کا اظہار کیا ہے اور یہ دکھایا ہےکہ آجکل کے نازک حالات میں کھیل کیسے لوگوں کو متحد کر سکتے ہیں۔‘‘
ان سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شمالی کوریا کے کھلاڑیوں نے جنوبی کوریائی کھلاڑیوں کے ساتھ ملکر الحاق کے جھنڈے تلے مارچ کیا تھا۔ دونوں کوریاؤں نے ان کھیلوں کے دوران ہاکی کے مقابلوں کیلئے خواتین کھلاڑیوں کی ایک مشترکہ ٹیم بھی تشکیل دی تھی۔ یوں دونوں کوریاؤں نے ان کھیلوں میں دوستی اور تعاون کا تاثر پیش کیا تھا۔
امریکہ نے بھی ان کھیلوں کے پر امن انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے جنوبی کوریا کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقوں کو مؤخر کر دیا تھا۔
کھیلوں میں شمالی کوریا کی شرکت سے جہاں جزیرہ نما کوریا میں خیر سگالی کی فضا اُبھری، وہاں شمالی کوریا کے لیڈر کی طرف سے جنوبی کوریا کے صدر مون جائے اِن کو شمالی کوریا کا دورہ کرنے کی دعوت بھی دی گئی۔ یہ دعوت شمالی کوریا کے لیڈر کم جون اُن کی طرف سے اُن کی بہن کم جونگ اُن نے پہنچائی جنہوں نے سرمائی اولمپکس میں شمالی کوریائی وفد کی قیادت کی تھی۔
کھیلوں کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے بعد امریکی نائب صدر پینس نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکہ شمالی کوریا کے ساتھ بات چیت کیلئے آمادہ ہو سکتا ہے۔ کھیلوں کی اختتامی تقریب کے دوران شمالی کوریا کے وفد نے جنوبی کوریا کے صدر مون کو بتایا تھا کہ شمالی کوریا بھی امریکہ کے ساتھ بات چیت لئے تیار ہے۔
تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ آیا امریکہ اور شمالی کوریا اپنے بیانات سے آگے بڑھ کر حقیقتاً بات چیت کا مرحلہ شروع کر پائیں گے یا نہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ نے جنوبی کوریا کے ساتھ ملتوی کی جانے والی مشترکہ فوجی مشقوں کے دوبارہ انعقاد کا اعلان کر دیا تو بات چیت کے دروازے ایک بار پھر بند ہو سکتے ہیں۔