امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ شمالی کوریا نے دو طرفہ مشاورت کے اس سلسلے میں شرکت روک دی ہے جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور کم یانگ ان کے درمیان سر براہی ملاقات کے لیے ضروری ہوتی۔
مسٹر پومپیو نے سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کے سامنے پیشی کے دوران صدر ٹرمپ کی جانب سے اس تاریخی فیصلے کی منسوخی کے بارے میں اضافی توجیہات پیش کیں۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے کم یانگ ان کو لکھے گئے خط کے منظر عام پر آنے کے کچھ ہی دیر بعد وزیر خارجہ پومپیو نے سربراہی اجلاس کی منسوخی کا تمام الزام پیانگ یانگ پر ڈال دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں شمالی کوریا کی جانب سے گزشتہ چند دنوں میں دیئے گئے بیانات کی مذمت کرتا ہوں اور حقیقت یہ ہے کہ ہم دونوں کی ٹیموں کے درمیان وہ تیاری نہیں ہو سکی ہے، جو کسی کامیاب سر براہی اجلاس کے انعقاد کے کسی موقع کے لیے ضروری ہوتی ہے ۔
ڈیمو کرٹک سینیٹر بوب میننڈیزنے کہا کہ انتظامیہ کو اس بارے میں تعجب نہیں ہونا چاہیئے تھا کہ شمالی کوریا اسی طرح سے عمل کر رہا ہے جیسا کہ وہ اکثر أوقات بین الاقوامی مذاكرات میں کرتا ہے اور یہ کہ یہ رکاوٹیں قابل قیاس تھیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم میں سے بہت سے اس بھر پور تیاری کے فقدان پر فکر مند تھے جو ایسے کسی سر براہی اجلاس پر صرف متفق ہونے کے لیے ہی ضروری ہوتی ہے، اور جو نہیں ہو رہی تھی۔ اور اب ہم اس کے نتائج دیکھ رہے ہیں اور میں یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ لیبیا کے ماڈل کا مسلسل حوالہ ان نتائج کے حصول کی کوشش کا کوئی سفارتی طریقہ ہے جو ہم شمالی کوریا میں چاہتے ہیں، کیوں کہ وہ لیبیا کے سابق لیڈر معمر قذافی کے لیے بہت زیادہ کار گر ثابت نہیں ہوا تھا۔
دوسری جانب ری پبلکن سینیٹر کوری گارڈنر نے کہا کہ سر براہی اجلاس کو ٹرمپ نے نہیں کم نے التوا میں ڈالا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ کم یانگ نے امن کے اس تاریخی موقع سے انحراف کیا ہے اور انہیں ان کے فیصلے پر جواب دہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔ اور وہ اندرونی کشمکش جو لازمی طور پر کم یانگ ان کے ذہن میں ہو رہی تھی، پراپیگنڈہ کرنے والےکم اور امن ساز کم کے درمیان ہو رہی تھی، تو یہ واضح ہو گیا ہے کہ پراپیگنڈہ کرنے والا کم اندرونی طور پر غالب آگیا اور یہ کہ امن اس پراپیگنڈے سے ہار گیا۔
ڈیمو کریٹک سینیٹر جین شاہین نے مسٹر پومیو سے پوچھا کہ شمالی کوریا کے سلسلے میں انتظامیہ کا اگلا قدم کیا ہوگا تو وزیر خارجہ نے جواب دیا، معمول کی صورت حال، جس سے مراد یہ تھی کہ حالات جوں کے توں رہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پیانگ یانگ پر امریکی قیادت کے تحت دباؤ کی مہم جاری رہے گی۔