امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک صدارتی حکم نامے کے تحت آٹھ چینی ایپس کے ساتھ، جن میں چینی کمپنی اینٹ گروپ کی علی پے بھی شامل ہے، لین دین پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
یہ حکم نامہ جسے سب سے پہلے خبر رساں ادارے رائٹرز نے رپورٹ کیا امریکی محکمہ تجارت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اس بات کا تعین کرے کہ کس قسم کے لین دین پر پابندیاں ہوں گی۔ جن ایپس پر پابندیاں لگی ہیں،ان میں ٹنسینٹ ہولڈنگ لمیٹڈ کی کیو کیو والٹ، اور وی چیٹ پے بھی شامل ہیں۔
رائٹرز سے بات کرتے ہوئے ایک سینیئر افسر کا کہنا تھا کہ یہ حکم نامہ امریکی عوام کو چینی ایپس سے محفوظ کرنے کے لیے جاری کیا گیا ہے۔ ان ایپس کو بڑے پیمانے میں استعمال کیا جاتا ہے اور انہیں حساس معلومات تک رسائی بھی حاصل ہے۔
ٹنسینٹ کے امریکہ میں ترجمان نے فوری طور پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔
صدر ٹرمپ کے حکم نامے میں کیم سکینر، وی میٹ، ٹنسینٹ کی کیو کیو، شئیر اٹ اور ڈبلیو پی ایس آفس بھی شامل ہیں۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ “امریکہ کو ان لوگوں کے خلاف سخت اقدام کرنے چاہیئں جو چینی سافٹ ویئر بناتے ہیں یا اسے کنٹرول کرتے ہیں تاکہ قومی سلامتی کا تحفظ کیا جا سکے۔”
رائٹرز سے بات کرتے ہوئے ایک امریکی افسر کا کہنا تھا کہ اگرچہ صدر ٹرمپ نے کامریس ڈیپارٹمنٹ کو 45 دن کی مہلت دی ہے کہ وہ اس طرح کے لین دین کا تعین کرے، جس پر پابندی ہونی چاہئے مگر محکمہ یہ کام 20 جنوری سے پہلے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
صدر ٹرمپ کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ “چین سے تعلق رکھنے والی سافٹ ویئر اپلیکیشنز امریکہ میں صارفین کے استعمال کی ڈیوایسز کے ذریعے، جن میں سمارٹ فونز، ٹیبلٹس اور کمپیوٹرز شامل ہیں، بڑے پیمانے پر صارفین کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کر سکتی ہیں جن میں انفرادی اور نجی طور پر قابل شناخت معلومات بھی شامل ہیں۔”
حکم نامے کے مطابق “اس طرح کی معلومات تک رسائی کی بدولت چین امریکی سرکاری اہل کاروں کی نقل و حرکت کو مانیٹر کر سکتا ہے اور ان کی انفرادی معلومات اکٹھی کر سکتا ہے۔”
ایک اور امریکی افسر کا کہنا ہے کہ یہ حکم نامہ صدر ٹرمپ کے اگست میں جاری کئے گئے حکم ناموں کی کڑی ہے جن میں انہوں نے چینی وی چیٹ اور ٹک ٹاک کے ساتھ بعض قسم کی لین دین پر پابندی عائد کی تھی۔ ان احکامات کو عدالتوں میں چیلنج کیا گیا تھا اور عدالتوں نے ان احکامات پر عمل روک دیا تھا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اس حکم نامے کو بھی عدالتوں کی جانب سے ویسے ہی چیلنج کا سامنا ہو گا جیسا کہ پچھلے حکم ناموں کو کرنا پڑا۔
امریکی کامریس سیکرٹری ولبر روس کا کہنا ہے کہ وہ “چینی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے امریکی عوام کو لاحق نجی معلومات اور سیکیورٹی کو لاحق خطرات سے بچانے کے صدر ٹرمپ کے مضبوط عزم کی حمایت کرتے ہیں۔”
پچھلے ہفتے کامریس ڈیپارٹمنٹ نے درجنوں چینی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کر دیا تھا۔ ان میں ملک کی سب سے بڑی کمپیوٹر چپ بنانے والی کمپنی ایس ایم آئی سی اور چینی ڈرون بنانے والی کمپنی ایس زی ڈی جی آئی ٹیکنالوجی لمیٹڈ بھی شامل تھیں۔
پچھلے مہینے ہی امریکی انتظامیہ کی جانب سے ان چینی اور روسی کمپنیوں کے نام بھی شائع کیے گئے، جن کے فوج کے ساتھ تعلقات ہیں اور ان پر خاص قسم کی امریکی مصنوعات خریدنے پر پابندی عائد کی گئی۔
نومبر میں ہی امریکی حکومت نے علی بابا سے منسلک کمپنی اینٹ گروپ کو بلیک لسٹ کرنے کے منصوبے پر کام روکا تھا۔