چین کی بڑی ٹیکنالوجی کی کمپنی 'ہواوے' پر امریکی پابندیاں عائد ہونے کے بعد اسے اپنے اسمارٹ فونز کے لیے مائیکرو پراسیسر چپس کی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
کمپنی کے ایک اعلی عہدے دار کے مطابق امریکی پابندیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی قلت کی وجہ سے ہواوے کو اپنے جدید ترین پراسیسر چپس کی پیداوار روکنی پڑے گی۔
ہواوے ٹیکالوجی لمیٹڈ دنیا بھر میں اسمارٹ فون بنانے والی بڑی کمپنیوں میں سے ایک ہے اور اس وقت امریکہ اور چین کی کاروباری چپقلش کا محور ہے۔
امریکہ چین کاروباری چپقلش اب چینی ایپس پر بھی اثر انداز ہونے لگی ہے اور ٹک ٹاک اور چین کی پیٖغام رسانی کی ایپ وی چیٹ کو بھی امریکی پابندیوں کا سامنا ہے۔
امریکہ نے ہواوے کی امریکی ٹیکالوجی کی مصنوعات اور گوگل میوزک اور دوسری اسمارٹ فون سروسز تک رسائی روک دی تھی۔
ان پابندیوں میں اس برس مئی میں مزید اضافہ کر دیا گیا تھا جب امریکہ نے دنیا بھر کی کمپنیوں کو ہواوے کے لیے امریکی ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے مصنوعات بنانے سے منع کر دیا ہے۔
امریکہ یورپی ممالک اور دوسرے حلیفوں سے بھی بات چیت کر رہا ہے کہ ہواوے کو ٹیکنالوجی کی مجوزہ نئے جنریشن نیٹ ورکس سے باہر رکھا جائے۔
کمپنی کے کنزیومر یونٹ کے صدر رچرڈ یو کے مطابق ہواوے کی ڈیزائن کی گئی کیرین پراسیسر چپس کی پیداوار 15 ستمبر سے رک جائے گی کیونکہ یہ ان کانٹریکٹرز کے ذریعے بنائی جاتی ہے جنہیں امریکی مصنوعات اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہواوے ابھی مکمل طور پر خود یہ چپس بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
رچرڈ یو نے ایک کانفرنس چائنا انفو 100 سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’بدقسمتی سے یہ ہمارے لیے بڑا نقصان ہے۔ امریکی پابندیوں کے دوسرے راؤنڈ کے بعد ہمارے لیے چپ بنانے والوں نے صرف مئی کے وسط تک آرڈر لیے ہیں۔ اس وجہ سے یہ پیداوار 15 ستمبر تک بند ہو جائے گی۔‘‘
ان کے مطابق اس برس اسمارٹ فونز کی فروخت پچھلے برس 2019 کی 24 کروڑ 40 لاکھ کی تعداد سے کم ہو گی۔
ہواوے چین کی جانب سے جاسوسی میں مدد کرنے کے الزامات سے انکار کرتا ہے۔
چین امریکہ پر الزام لگاتا ہے کہ وہ قومی سلامتی کے نام پر امریکی ٹیکنالوجی کی انڈسٹری کو ایک حریف سے دور کر رہا ہے۔
ہواوے دنیا بھر میں چین سے تعلق رکھنے والی بڑی کمپنیوں میں شامل ہے۔