|
آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کا سالانہ سربراہی اجلاس، COP29 پیر کے روز شروع ہو گیا ہے جو 22 نومبر تک جاری رہے گا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ ان اجلاسوں میں شرکت کرنے والے ممالک کے درمیان مالی وسائل اور تجارت کے حوالے سے سخت مذاکرات ہوں گے۔
یہ اجلاس ان موسمیاتی آفات کے ایک سال بعد منعقد ہورہاہے جن سے ترقی پذیر ممالک کو آب وہوا کی تبدیلی کے حوالے سے فنڈز فراہم کرنے کے مطالبات کرنے کا حوصلہ ملا ہے ۔
آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں اکھٹے ہونے والے مندوبین کو امید ہے کہ سربراہی اجلاس کے ایجنڈے میں سر فہرست مسئلے کو حل کر لیا جائے گا۔ اس مسئلے کا تعلق ترقی پذیر ملکوں کے لیے سالانہ کلائمیٹ فنانس میں ایک ٹریلین ڈالر تک کا ایک معاہدہ ہے۔
تاہم، سربراہی اجلاس کی مذاکراتی ترجیحات میں حکومتوں کے وسائل کے لیے مسابقت اور معاشی خدشات پر توجہ مرکوز کرنے، یوکرین اور غزہ میں جنگیں اور گزشتہ ہفتے امریکہ میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے صدر کے طور پر، آ ب و ہوا کی تبدیلی کے منکر ڈونلڈ ٹرمپ کا دوبارہ منتخب ہونا شامل ہیں۔
اجلاس کے میزبان ملک ، آذربائیجان کو یہ کام سونپا جائے گا کہ وہ متاثر ممالک کو 100 ارب ڈالر کے موجودہ معاہدے کی جگہ، جس کی مدت اس سال ختم ہو رہی ہے ، ایک نئے عالمی مالیاتی معاہدےپر اتفاق رائے حاصل کرنے کے اقدامات کرے۔
بحیرہ کیسپین کے اس ملک پر بھی، جو اکثر دنیا کے اولین تیل کے کنوؤں کا مرکز ہونے پر فخر کرتا ہے، اس بارے میں دباؤ ہو گا کہ وہ گزشتہ سال کی کلائمیٹ کانفرنس، COP28 میں معدنی ایندھن کے استعمال میں کمی لانے کے وعدے میں پیش رفت ظاہر کرے۔
آذر بائیجان کی تیل اور گیس کی آمدنی 2023 میں اس کی معیشت کا 35 فی صد تھی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ محصولات اس سال اس کے مجموعی قومی پیداوار، یعنی جی ڈی پی کے تقریباً 32 فیصد اور مزید کم ہوتے ہوئے 2028 تک 22 فیصد تک رہ جائیں گے۔
سربراہی اجلاس کے آغاز سے بھی پہلے، ممالک کو اتفاق رائے سے ایک ایجنڈے پر متفق ہونا پڑے گا، جس میں تجارتی تنازعات کو آخری لمحات میں طے کرنے کے لیے چین کی طرف سے ایک تجویز بھی شامل ہے۔
برازیل، بھارت اور جنوبی افریقہ سمیت تیزی سے ترقی کرنے والے ملکوں کے ایک گروپ BASIC کی جانب سے پیش کی گئی چینی تجویز میں سر براہی اجلاس سے ’پابندی کے حامل تجارتی اقدامات‘ سے نمٹنے کے لیے کہا گیا ہے۔ جس کی ایک مثال یورپی یونین کا 2026 میں نافذالعمل ہونے والا کاربن بارڈر ٹیرف ہے۔ اس محصول کا اطلاق ان درآمدی اشیا پرہو سکتاہے جن کی تیاری کے دوران کاربن گیسوں کا اخراج ہوتا ہے۔
اب ان خدشات میں ٹرمپ کی انتخابی مہم میں کیے گئے اس وعدے کے بعد اضافہ ہو گیا ہے کہ تمام غیر ملکی اور چینی سامان پر 60 فیصد محصول لگایا جائے گا۔
ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹی ٹیوٹ میں چائنا کلائمیٹ ہب کے ڈائریکٹر لی شو نے کہا ہے کہ چین کی درخواست سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ ٹرمپ کے دوبارہ انتخاب کے بعد ،جس سے امریکہ کی جانب سے آب و ہوا کے عالمی مسائل پر تعاون سے ممکنہ علیحدگی کا سگنل ملتاہے، اپنے اقدامات میں لچک کا مظاہرہ کررہا ہے ۔
ٹرمپ نے آب و ہوا کی تبدیلی کو ایک دھوکہ قرار دیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ پیرس معاہدے سے نکل جائے گا، جو کرہ ارض سے حرارت کے اخراج کو کم کرنے کا عالمی معاہدہ ہے۔
یورپی یونین، موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر چین اور خلیجی تیل کے ممالک پر دباؤ ڈالتی رہی ہے کہ وہ آب و ہوا کی تبدیلی کے مسئلے کے حل کے لیے فنڈز دینے والے ملکوں کے پول میں شامل ہو جائے۔
شو نے کہا کہ اگر یورپی یونین چین کے ساتھ موسمیاتی مالیات کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہے، تو بات چیت کا ایک حصہ یہ ہونا چاہیے کہ تجارت اور آپ کے محصولات پر ہمارے اختلافات کو کیسے حل کیا جائے۔"
اب جب کہ رواں سال عالمی ریکارڈ کا گرم ترین سال بن رہا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت میں غیرمعمولی اضافے کے نتیجے میں اب افریقہ، اسپین، جنوبی امریکہ اور میکسیکو تک امیر اور غریب ملکوں کو یکساں طور پر شدید سیلابوں، طوفانوں اور خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
آب وہوا اور توانائی کے مسائل کے حل سے متعلق ایک غیر منافع بخش ادارے میں بین الاقوامی اسٹریٹیجی سے متعلق وائس پریذیڈنٹ ، کاویہ گیلان پور کاکہناہے، ’انتخابی نتائج فطرت کے قوانین کو تبدیل نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک دنیا اجتماعی طور پر اپنی کوششوں میں تیزی نہیں لاتی، آب و ہوا کی تبدیلیوں کے اثرات تیزی سے شدید اور زیادہ تعداد میں ہوتے جائیں گے اور امریکہ سمیت تمام ممالک میں لوگوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد کو مصائب اور مشکلات کے ان چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
(اس رپورٹ کی معلومات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)
فورم