رسائی کے لنکس

امریکی صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کو شاندار کامیابی کیسے حاصل ہوئی؟


ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ، میلائنا ٹرمپ اور بیرن ٹرپ ویسٹ پام بیچ فلوریڈا میں انتخابی پارٹی میں تقریر کے لیے آ رہے ہیں۔ 6 نومبر 2024
ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ، میلائنا ٹرمپ اور بیرن ٹرپ ویسٹ پام بیچ فلوریڈا میں انتخابی پارٹی میں تقریر کے لیے آ رہے ہیں۔ 6 نومبر 2024
  • نومبر 2024 کے انتخابات میں ٹرمپ کی جیت کو انتخابی مبصرین نے ایک شاندار کامیابی قرار دیا ہے۔
  • ٹرمپ نے ساتوں سوئنگ ریاستیں جیت لیں جن پر دونوں پارٹیوں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ تھا۔
  • ایگزٹ پولز یہ ظاہر کر رہے تھے کہ کاملا ہیرس کو ٹرمپ پر معمولی برتری حاصل ہے، مگر وہ درست ثابت نہیں ہوئے۔
  • ماہرین کا کہنا ہے ٹرمپ کو زیادہ تر ووٹ کم پڑھے لکھے ووٹرز نے دیے۔
  • ٹرمپ نے پالولر ووٹوں میں بھی کاملا کو شکست دی ہے۔
  • موجودہ انتخابات میں ٹرمپ کے لیے سیاہ فاموں اور ہسپانوی بولنے والے ووٹرں میں حمایت بڑھی ہے۔
  • زیادہ تر خواتین نے کاملا جب کہ مردوں نے ٹرمپ کو ووٹ دیا۔

گزشتہ ہفتے 2024 کے قومی انتخابات میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس کی چار سالہ صدارتی مدت کے لیے جیت ایک بڑی اور شاندار کامیابی کے طور پر سامنے آئی ہے۔

پانچ نومبر کے انتخابات سے پہلے، رائے عامہ کے قومی جائزوں میں سروے کی بنیاد پر یہ دکھایا گیا تھا گیا کہ نائب صدر کاملا ہیرس کو ٹرمپ پر ممکنہ طور پر ایک یا دو فی صد کی معمولی برتری حاصل ہے۔

رائے عامہ کے جائزے ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار نائب صدر کاملا ہیرس اور ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان کانٹے کے مقابلے کی نشان دہی کر رہے تھے اور انتخابی تجزیہ کاروں نے کہا تھا کہ سات سوئنگ ریاستوں کے انتخابی نتائج اہم ثابت ہوں گے۔

تاہم ٹرمپ تمام ساتوں سوئنگ ریاستوں میں کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب رہے جس کے نتیجے میں ان کے لیے ریاستوں کے تناسب سے الیکٹورل ووٹوں کی گنتی کاملا ہیرس کے 226 کے مقابلے میں 312 ہو گئی، جب کہ صدارت جیتنے کے لیے 270 الیکٹورل ووٹ درکار ہوتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کیسے کریں گے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:59 0:00

امریکہ کے سیاسی نظام میں صدارت کا فیصلہ الیکٹورل ووٹوں کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

ٹرمپ نے سات سوئنگ ریاستوں میں سے وسکانسن کو ایک فی صد سے بھی کم تناسب اور ایری زونا کو 6 فی صد سے زیادہ ووٹوں کے ساتھ جیتا۔

ٹرمپ، جن کی عمر 78 سال ہے، 20 جنوری 2025 کو ملک کے 47 ویں صدر کے طور پر صدر کا عہدہ سنبھالیں گے۔ 1890 کے عشرے کے صدر گروور کلیولینڈ کے بعد ٹرمپ پہلے ایسے امریکی صدر ہیں جن کی دونوں صدارتی مدتوں کے درمیان وفقہ ہے۔

وہ امریکی تاریخ کے سب سے زیادہ عمر رسیدہ صدر ہیں۔

ٹرمپ کی واپسی پر افریقہ کے لوگ کیا سوچ رہے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:13 0:00

ٹرمپ نے مجموعی عوامی ووٹ بھی جیتا ہے جو 2004 میں سابق صدر جاری ڈبلیو بش کے بعد ایسے پہلے ریپبلکن صدر ہیں۔

اگرچہ باقی ماندہ ووٹوں کی گنتی ابھی جاری ہے، ٹرمپ پہلے ہی واضح طور پر فتح یاب ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اب تک تقریباً ساڑھے سات کروڑ ووٹ حاصل کیے ہیں، جب کہ ہیرس کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد سات کروڑ دس لاکھ سے قدرے کم ہے۔ ٹرمپ کے حاصل کردہ ووٹوں کا تناسب ساڑھے 50 فی ہے جب کہ کاملا ہیرس کو اب تک 47.9 فی صد ووٹ ملے ہیں۔

موجودہ 2024 کے قومی انتخابات میں ٹرمپ کو ملنے والے ووٹ لگ بھگ اتنے ہی ہیں جتنے کہ انہوں نے 2020 کے الیکشن میں حاصل کیے تھے اور وہ صدر جو بائیڈن سے ہار گئے تھے۔ اس وقت انہوں نے سات کروڑ 40 لاکھ کے لگ بھگ ووٹ لیے تھے۔ لیکن موجودہ انتخابات میں کاملا ہیرس نے بائیڈن کے 2020 کے ووٹوں کے مقابلے میں تقریباً ایک کروڑ کم ووٹ لیے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی؛ یوکرینی کیا سوچ رہے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:07 0:00

رائے عامہ کے جائزے مرتب کرنے والے اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے سروے صورت حال کی ایک عمومی تصویر پیش کرتے ہیں اور ضروری نہیں ہوتا کہ وہ پیش گوئی درست ثابت ہوں۔

سن 2016 سے ٹرمپ تین بار صدارتی انتخاب کے لیے اپنی مہم چلا چکے ہیں۔ لیکن سروے رپوٹس میں ان کے لیے کم حمایت سامنے آتی رہی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ سروے کے موقع پر بہت سے لوگ درست طور پر یہ بتانے سے کتراتے ہیں کہ وہ کس کو ووٹ دیں گے۔ اور پولنگ کے وقت وہ اسے ووٹ دیتے ہیں جسے وہ پسند کرتے ہیں لیکن اس بارے میں کھلے عام اظہار نہیں کرتے۔

ووٹ ڈال کر آنے والوں سے کیے گئے انٹرویوز سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر خواتین ووٹروں نے کاملا ہیرس اور مردوں نے ٹرمپ کے حق میں اپنا ووٹ ڈالا۔ زیادہ تعلیم یافتہ ووٹرز نے ہیرس کی حمایت کی اور جن ووٹروں کے پاس کالج کی ڈگری نہیں تھی، انہوں نے ٹرمپ کو ووٹ دیا۔ یاد رہے کہ امریکہ میں دو تہائی افراد کے پاس کالج کی ڈگری نہیں ہے۔

پاکستان اور ٹرمپ حکومت کے درمیان تعلقات کیسے ہوں گے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:16 0:00

ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایگزٹ پول سروے کے مطابق 16 فی صد سیاہ فام ووٹروں نے موجودہ الیکشن میں ٹرمپ کو ووٹ دیا جو 2020 کے مقابلے میں انہیں ملنے والے سیاہ فام ووٹوں سے دو گنا ہیں۔اس کے مقابلے میں 83 فی صد سیاہ فاموں کے ووٹ کاملا ہیرس کے حق میں گئے۔ جب کہ 2020 کے الیکشن میں بائیڈن کی حمایت کرنے والے سیاہ فام ووٹرز 91 فی صد تھے۔

موجودہ الیکشن میں ڈیموکریٹس کے لیے ہسپانوی بولنے والے ووٹروں کی حمایت میں بھی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ 2024 کے انتخابات میں کاملا کو ملنے والے ہسپانوی ووٹوں کی تعداد 56 فی صد تھی جب کہ 2020 میں 63 فی صد ہسپانوی نژاد ووٹروں نے بائیڈن کی حمایت کی تھی۔

دوسری جانب چار سال پہلے کے الیکشن میں ٹرمپ کے لیے ہسپانوی حمایت 35 فی تھی جو موجودہ الیکن میں بڑھ کر 42 فی صد ہو گئی۔

فورم

XS
SM
MD
LG