افغانستان اور پاکستان کے درمیان مصروف ترین شاہراہ پر سرحدی قصبے لنڈی کوتل میں حکومت کی جانب سے معاہدے پر مبینہ عمل نہ ہونے کے خلاف قبائل کا دھرنا تیسرے روز بھی جاری رہا جس سے دونوں ممالک میں تجارت دو دن سے معطل ہے۔
مقامی قبائل کا کہنا ہے کہ سرحدی گزرگاہ طورخم میں حکومتی اداروں کے زیرِ استعمال اراضی کے مالکان اور سرکاری اداروں میں معاہدہ ہوا تھا جس پر عمل درآمد نہ ہونے پر تنازع 2015 سے چلا آ رہا ہے۔ اس تنازعے کے باعث قبائل احتجاج، دھرنے اور مظاہرے کرتے رہتے ہیں۔
تین روز قبل منگل کو طورخم میں احتجاجی دھرنے میں شامل قبائل نے سرکاری عمارتوں پر تعمیر رکوا دی تھی جس پر پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں نے کارروائی کر کے لگ بھگ 60 افراد کو حراست میں لیا تھا۔ جب کہ احتجاجی دھرنے کے کیمپ کو بھی ختم کرا دیا تھا۔
بعد ازاں منگل کو شینواری قبائل کے افراد نے لنڈی کوتل میں جمع ہو کر احتجاج کیا۔ جب کہ بدھ کو احتجاج میں پاکستان افغانستان شاہراہ کو بھی ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند کر دیا تھا۔
احتجاجی دھرنے کے شرکا نے پولیس پر پتھراؤ کیا تھا۔ جب کہ جوابی کارروائی میں پانچ اہلکاروں سمیت چھ افراد زخمی ہوئے تھے۔
قبائلی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ طورخم میں برطانوی دورِ حکومت (برٹش انڈیا) میں قبائلی علاقوں اور افغانستان کے درمیان باقاعدہ طور پر ایک سرحدی گزرگاہ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ اس سرحدی گزرگاہ پر سرکاری عمارات اور دیگر دفاتر وغیرہ کے لیے شینواری قبیلے کی ذیلی شاخ خوگاخیل سے 132 کنال اراضی لیز پر لی گئی تھی۔
اُس وقت سے خوگاخیل قبیلے کے بعض سرکردہ افراد کو اس زمین کے استعمال یا اجارے کی رقم کی ادائیگی کی جا رہی ہے۔
امریکہ میں گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد افغانستان میں ایک مرکزی نظام قائم ہوا۔ جب کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ تجارت اور آمد و رفت میں اضافہ ہوا تو حکومت نے باقاعدہ طور پر خوگاخیل سمیت شینواری قبیلے کی تین شاخوں سے تعلق رکھنے والی افراد سے مزید زمین لیز پر لینے کی کوشش شروع کی۔
حکومتِ پاکستان نے جب 15-2014 میں افغانستان کے ساتھ تمام سرحدی گزرگاہوں پر باقاعدہ طور پر سرکاری اداروں کے دفاتر وغیرہ قائم کرنے اور سرحد پر خار دار تار بچھانے کا فیصلہ کیا۔ تو خوگاخیل قبیلے کی تینوں شاخوں سے تعلق رکھنے والے قبائلیوں نے ایک نو رکنی کمیٹی قائم کی۔ اس کمیٹی نے طویل بحث و مباحثے کے بعد ایک مسودہ حکومت کے حوالے کیا۔
خوگاخیل شینواری قبیلے سے تعلق رکھنے والے لطف اللہ شینواری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ قبیلے کی تینوں شاخوں سے تعلق رکھنے والے نو ارکان پر مشتمل کمیٹی نے قبائل کو اعتماد میں لینے کے بعد چار جون 2015 کو ایک مسودہ حکومت کو پیش کیا۔ اس مسودے میں درج تھا کہ 300 کنال اراضی حکومت کو لیز پر دینے کے عوض طورخم سے ہونے والی آمدنی میں 24.5 فی صد حصہ قبائل کو دیا جائے گا۔ ان کے بقول اس کے علاوہ حکومت سالانہ دو کروڑ روپے اجارہ یا لیز کے طور پر ادا کرنے کی پابند ہو گی۔ اس لیز کی رقم میں سالانہ 10 فی صد اضافہ بھی کیا جائے گا۔
لطف اللہ شینواری کا مزید کہنا تھا کہ اسلام آباد میں حکام نے معاہدے کے مسودے کی اس شق سے، جس میں دو کروڑ سالانہ ادائیگی کا ذکر ہے، مکمل اتفاق کیا۔ البتہ 24.5 فی صد آمدنی نہ دینے کا فیصلہ صادر کر دیا۔ اس طرح وفاقی حکومت نے سالانہ 10 فی صد اضافے کو پانچ فی صد کرنے کا فیصلہ کیا۔
لطف اللہ شینواری نے بتایا کہ معاہدے کے مسودے میں ترامیم اور حتمی شکل دینے کے لیے دوبارہ نو رکنی کمیٹی سے رابطہ کیا جانا چاہیے تھا۔ مگر حکومت نے اس وقت کی پولیٹیکل انتظامیہ کے چند من پسند اور وفادار قبائلی رہنماؤں کو اعتماد میں لے کر یک طرفہ طور پر معاہدے پر دستخط کرائے۔
لطف اللہ شینواری کا کہنا تھا کہ اُس وقت سے طورخم میں حکومت اور مقامی قبائلیوں کے درمیان تنازع ہے۔ اب ان کا مطالبہ ہے کہ اگر حکومت مسئلے کو رضا مندی سے حل کرنا چاہتی ہے تو اسی کمیٹی کے ساتھ مل کر معاہدے میں ترامیم کرے۔
انہوں نے کہا کہ قبائل اس مسئلے کے حل پر مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
لطف اللہ شینواری کے مطابق اب 24.5 فی صد کے بجائے قبائلیوں کو فی ٹرک کے حساب سے 600 روپے کی ادائیگی کی جا رہی ہے۔ جب کہ حکومت کے ساتھ مارچ میں ہونے والے مذاکرات میں فی ٹرک 600 روپے کے بجائے آمدنی کے 19 فی صد ادائیگی پر بھی اتفاق ہوا تھا۔ ان کے بقول اب اس پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا۔
شینواری قبیلے کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ گزشتہ کئی برس کے مظاہروں اور کوششوں کے بعد حال ہی میں علاقے کی حد بندی کی گئی ہے جس میں 2015 کے بعد لیز پر دی جانی والی زمین کے بعد اب 100 کنال سے زائد اراضی پر تعمیرات کی جا رہی ہیں۔ اب ان کا مطالبہ ہے کہ 300 کنال کے بجائے یا تو 400 کنال اراضی کے حساب سے آمدنی اور سالانہ ادائیگی کو بڑھایا جائے یا یہ زمین خالی کی جائے۔
طورخم میں شینواری قبائل اور حکومتی اداروں کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے ضلع خیبر کے ڈپٹی کمشنر اور ضلعی پولیس افسر کی سطح پر مذاکرات ہوتے رہتے ہیں۔ حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ضلع خیبر سے رکن قومی اسمبلی اقبال آفریدی بھی وقتاََ فوقتاََ ان مذاکرات میں شامل ہوتے رہے ہیں۔
ڈیڑھ سال قبل وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے بھی ضلع خیبر کے دورے میں یہ مسئلہ حل کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
رکن قومی اسمبلی اقبال آفریدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ خوگاخیل قبیلے کی حکومت کے ساتھ معاہدے پر عمل درآمد اور مسئلے کے حل کے لیے کوشش کی جا رہی ہے۔