رسائی کے لنکس

کراچی والے ’اسٹال‘ سے نہیں،’اسٹائل‘ سے کھاتے ہیں


جی ہاں ۔۔کراچی والے بدل گئے، ماحول بدل گیا۔ شہر میں جہاں پہلے ٹھیلوں اور ریڑھیوں پر حلیم اور بریانی ملاکرتی تھی اب وہاں بڑے بڑے غیرملکی اور مہنگے مہنگے آوٴٹ لیٹس کھل گئے ہیں۔۔

پاکستان اب ’دال روٹی کھانے والا معاشرہ‘ نہیں رہا ۔۔بڑے شہروں اور خاص کر کراچی کی بات کریں تو یہاں امریکی اور مغربی فوڈ چین اور فرنچائز کا انبار لگتا جارہا ہے۔ 25سال پہلے لوگ ’برگر‘ کے نام سے بھی نا واقف تھے۔ لیکن، آج یہاں ایک وقت میں ایک لاکھ سے بھی زیادہ برگر کھالئے جاتے ہیں۔۔۔۔صرف برگرز کی اقسام اور ناموں پر نظر ڈالیں تو بھی یہ تعداد حیرت میں ڈال دیتی ہے۔

حلیم اوربریانی کا ذائقہ ’اولڈ‘ ہوگیا
شہر قائد کے پرانے رہائشی اس بات کے گواہ ہیں کہ آج جس طرف نکل جائیے آپ کو لوگوں کے کھانے پینے کے انداز بدلے ہوئے نظر آئیں گے۔ جس شہر میں پہلے ٹھیلوں اورریڑھیوں پر صرف حلیم، بریانی یا بن کباب کھائے جاتے تھے، آج وہاں بڑے بڑے غیر ملکی آوٴٹ لیٹس کھلے ہوئے ہیں ۔۔۔اور ان کی ہر روز بڑھتی ہوئی رونق، گاہکوں کا رش، جدید انداز و تراش خراش اور صاف صفائی دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ گویا آپ کسی اور ملک میں بیٹھے ہیں۔ نئی جنریشن کے لئے حلیم، بریانی اور زردے کا ذائقہ ’اولڈ‘ ہوگیا، وہ مغلئی ڈِشز سے دور بھاگتی ہے۔۔ آج برگر، سینڈوچ اور پیزا ان کا ’ہوٹ فیورٹ‘ ہے۔

دال روٹی والے معاشرے میں برگر کی پذیرائی
کراچی میں 90کی دہائی میں برگر کو متعارف کرانے کا سہرا ’مسٹربرگر‘ کے سر ہے۔ اس امریکی ’غذا‘ کو پاکستان کے ’دال روٹی‘ معاشرے میں وہ پذیرائی ملی کہ آج 25 سال بعد بھی اسے ’ہاتھوں ہاتھوں‘ خریدا جاتا ہے۔ نئی نسل آسانی سے اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں کہ نوے کی دہائی میں لوگ برگر کے نام سے بھی ناواقف تھے اور جب تک انہوں نے پہلی مرتبہ اسے کھا یا دیکھ نہیں لیا، وہ یہ سمجھ ہی نہ سکے کہ برگر ہوتا کیا ہے۔

میکڈونلڈ کا برگر ۔۔۔فیشن بن گیا
پھر 1998ء میں پہلی مرتبہ امریکی فاسٹ فوڈ کمپنی، ’میکڈونلڈ‘ نے پاکستانی معاشرے میں قدم رکھا، جس کے بعد، اس کی مانگ میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ آج ہر روز اس کی ڈیمانڈ میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکہ اور دوسرے ممالک میں بے شک اسے ’جنک فوڈ‘ بھی کہا جاتا ہو، لیکن ہمارے یہاں رات کے کھانے کے طور پر، برنچ میں، شام کی چائے کے ساتھ اور ۔۔’شغل‘ کے طور پر برگر ’ہضم‘ کرلیا جاتا ہے۔ گویا، برگر ایک فیشن کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔

مغربی مخالفت کے باوجود غیر ملکی فوڈ کمپنیاں کامیاب
ملک میں ایک جانب مغربی معاشرت کو مخالفت کا سامنا ہے، تو دوسری جانب مغربی و امریکی طرز معاشرت کو اختیار کرنے والوں کی تعداد میں دن دوگنا اضافہ بھی ہورہا ہے۔ اس کی جیتی جاگتی مثال معاشرے میں تیزی سے پھیلتے غیر ملکی خاص کر مغربی فوڈ فرنچائز اور آوٴٹ لیٹس ہیں۔ آج بڑے شہروں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہوگا جہاں امریکی و مغربی فرنچائز کے ساتھ ساتھ عربی، افریقی، چائنیز، تھائی، جاپانی، انڈین، بنگالی، حیدرآبادی اور اطالوی فرنچائز مثلاً ’سب وے‘، ’پیزا ہٹ‘، ’ہارڈیز‘، ’او پی ٹی پی‘، ’نینڈوز‘، ’ ڈنکن ڈونٹس‘ اور’ ڈومینوز‘، نہ ہوں۔

تیزی سے پھلتا پھولتا کاروبار
امریکہ سے تعلق رکھنے والی دنیا بھر میں شہرت رکھنے والے فوڈ چین’کے ایف سی‘ کو پاکستان میں آئے کئی برس گزر گئے ہیں۔ یہ پاکستان آنے والی پہلی غیر ملکی فرنچائزز میں سے ایک ہے۔ اپریل 2014ء یعنی پچھلے مہینے تک ملک بھر میں اس کی 58برانچیں تھیں، 23سندھ ،24جنوبی اور 11وسطی پنجاب میں ہیں۔ آپریشن منیجر سندھ محمد عظیم نے ’وی او اے‘ کو بتایا، ’ہماری کمپنی انتظامیہ حال ہی میں تبدیل ہوئی ہے، نئی انتظامیہ عنقریب برانچیں بڑھانے والی ہے۔اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ کمپنی کا کاروبار بڑھ رہا ہے۔‘

برگرکنگ
یہ بھی غیر ملکی فرم ہے اور پچھلے سال ہی پاکستان میں آیا ہے اور ایک سال بھی نہیں ہوا۔ ابھی اس کی شہر میں صرف چار یا پانچ آوٴٹ لیٹس ہی ہیں۔ لیکن، برگر کنگ ہولڈنگز انکارپوریٹ کے ایگزیکیٹو وائس پریذیڈنٹ اینڈ ایشیاء پیسیفک کے صدر، ایلییاز ڈی یاز سیس کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ بہت جلد پاکستان میں اپنا بزنس بڑھائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے مثالی ماحول موجود ہے۔

ماضی اور حال کا فرق
اب ہر چھوٹے بڑے شاپنگ مال میں فوڈ کورٹس کھل گئے ہیں۔کراچی کے علاقوں مثلاً طارق روڈ، حیدری، کلفٹن، ڈیفنس، گلشن اقبال، گلستان جوہر، نارتھ ناظم آباد اور دیگر تمام علاقوں کے شاپنگ سینٹرز کے پورے پورے فلورز ان فرنچائزز سے بھرے پڑے ہیں۔ لیکن، کچھ ہی سال پہلے کی بات ہے شہر میں ایک ہی فوڈ اسٹریٹ ہوا کرتی تھی ۔۔برنس روڈ جہاں ایک ساتھ درجنوں ہوٹلز اور ریسٹورنٹس ہوا کرتے تھے۔ مگر ’دیسی اسٹائل‘ کے۔۔جبکہ اب ہر علاقے کی اپنی ایک فوڈ اسٹریٹ ہے۔ گلشن اقبال، نارتھ ناظم آباد یہاں تک کہ نیو کراچی میں ’سندھی ہوٹل‘ پر بھی کھانوں کی انگنت ورائٹیز اور ریسٹورنٹس موجود ہیں۔

کراچی سب سے سستا شہر ہے۔۔!!
کچھ عالمی اداروں کی رپورٹیں بتاتی ہیں کہ کراچی اب بھی سستے ترین شہروں میں شامل ہے۔ کم ازکم یہاں ایک وقت کا کھانا جتنے کم پیسوں میں مل جاتا ہے ایسا باقی شہروں میں کم ہی ہوتا ہے۔ لیکن، کراچی کے بدلتے ہوئے لائف اسٹائل کو دیکھ کر لگتا ہے کہ پیسہ اب شاید مسئلہ نہیں رہا، ہر طبقے کے لوگ اپنی پہنچ کے مطابق ہوٹلنگ کرتے ہیں۔ مثلاً ایف بی ایریا واٹر پمپ پر واقع ’خان بروسٹ‘ نسبتاً سستا اور متوسط طبقے کا ریسٹورنٹ ہے جہاں برگر 100 روپے اور بروسٹ 160 روپے میں مل جاتا ہے ۔

’خان بروسٹ‘ بمقابلہ ’کے ایف سی‘
بظاہر ان دونوں میں کوئی مقابلہ نہیں۔ البتہ قیمت کا جائزہ لینے کے لئے وی او اے کے نمائندے نے تمام فرنچائز کمپنیز کے آوٴٹ لیٹس کا دورہ کیا۔ کے ایف سی کا ایک برگر’ڈبل ڈیکر‘ 350روپے کا ہے، جبکہ ’زنگر‘ 300روپے کا ہے وہ بھی مڈ نائٹ ڈیل میں۔ یعنی یہ صرف رات بارہ بجے کے بعد اس قیمت میں دستیاب ہوگیا۔ باقی اوقات میں یہ مہنگا ہے۔

یہی حال ’سب وے‘ کا ہے۔ شروع میں ’سب وے‘ سینڈویچ صرف 200روپے میں دستیاب تھا مگر اب یہ بھی 250سے کم کا نہیں۔ اسی طرح ’نینڈوز‘ کی سب سے سستی ڈیل بھی چار سو روپے کی ہے۔’پیزاز‘ کی بات کریں تو پین پیزا 250روپے عام ریگولر 500، لارج پیزا 1000اور ایکسٹر لارج پیزا 1200روپے کا آتا ہے۔ ان قیمتوں میں کمی بیشی کی بنیاد وقت، سائز، اسپیشل ایونٹس اور ڈیلز ہر انحصار کرتی ہے۔

ان قیمتوں کے باوجود غیر ملکی فوڈ چینز کا بزنس خوب بڑھ رہا ہے، جو ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو مدنظر رکھیں تو یہ مثبت علامت ہے۔ سوسائٹی بدل رہی ہے، معیار بڑھ رہا ہے اور یوں، پیسے کی ریل پیل ہے۔

ایک وقت میں ایک لاکھ برگرز کی فروخت
کے ایف سی اور میکڈونلڈ آوٴٹ لیٹس میں کام کرنے والے عہدیداروں سے حاصل کردہ محتاط تخمینہ جات کے مطابق کراچی میں ایک وقت میں تقریباً ایک لاکھ سے زائد برگر فروخت ہوتے ہیں۔ اتنی ہی بڑی تعداد میں پیزا بھی خریدے جاتے ہیں۔ صرف کراچی میں ملکی اور غیر ملکی مشہور پیزا کمپنیز کی تعداد آج ایک درجن سے بھی زیادہ ہے جبکہ مقامی طور پر بھی درجنوں پیزا بنانے والی کمپنیز کامیابی سے اپنا بزنس رن کررہی ہیں۔

کسی فرنچائز میں جگہ نہیں۔۔ طویل انتظارلازمی
کراچی کی رہائشی اور ہوٹلنگ کی شوقین، یونیورسٹی اسٹوڈنٹ نوشین ربانی کہتی ہیں ’عید اور دوسرے تہواروں کے موقع پر تو مغربی فرنچائزز کے ساتھ ساتھ لوکل ہوٹلز میں بھی جگہ نہیں ملتی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے پچھلے سال رمضان میں میرے ڈپارٹمنٹ فولوز نے سندھی مسلم سوسائٹی میں واقع ’نینڈدز‘ کی آوٴٹ لیٹس پر افطار پارٹی رکھی تھی۔۔آپ کو سن کر حیرانی ہوگی کہ ہمیں محض جگہ حاصل کرنے کے لئے افطار سے دوگھنٹے پہلے وہاں پہنچنا اور انتظار کرنا پڑاکیونکہ رش کی وجہ سے ہی رمضان میں پہلے سے ٹیبلز بک نہیں کی جاتیں۔‘

نارتھ ناظم آباد کے رہائشی امیر علی بتاتے ہیں، ’عید کے تین دنوں میں تو حال اور بھی زیادہ برا ہوتا ہے۔ پہلے گھنٹوں تک ٹریفک میں پھنسے رہنے کی کوفت پھر آوٴٹ لیٹ میں جگہ ملنے کا انتظار۔۔۔دونوں چیزیں بری طرح تھکا دیتی ہیں۔۔۔مگر کریں تو کیا۔۔۔کہ ہر جگہ ایسا ہی رش ہوتا ہے۔‘

فوڈ انڈسٹری کو اربوں کا منافع
غور طلب پہلو یہ ہے کہ کراچی بری طرح سے بدامنی اور دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، اگر ٹارگٹ کلنگ ختم ہوجائے، دہشت گردی نہ ہو، امن و امان کا مسئلہ درپیش نہ رہے اور جرائم کا قلع قمع ہوجائے تو یہاں کی فوڈ انڈسٹری اربوں روپے کا منافع دے سکتی ہے۔ بعض علاقے تو ایسے ہیں جہاں ریسٹورنٹس اور ہوٹلنگ کا بزنس بہت عروج پر ہے۔جیسے ’پورٹ گرینڈ ‘ اور ’دو دریا“۔ ان علاقوں میں ’چلتا‘ فوڈ بزنس رونق بخش ہونے کے ساتھ ساتھ ’دولت بخش‘ بھی ہے۔
XS
SM
MD
LG