امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹِلرسن نے منگل کے روز انسانی اسمگلنگ کے بارے میں 2017ء کی سالانہ رپورٹ جاری کی۔ اِس موقع پر، اُن کا کہنا تھا کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں اس سال دنیا بھر میں ’’کوئی زیادہ بہتری نہیں آئی، بلکہ چند ملکوں میں انسانی اسمگلنگ میں اضافہ دیکھا گیا‘‘ ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ چین، ایران، شام، روس، شمالی کوریا، تھائی لینڈ، فلپائن، افغانستان، یوکرین، برازیل کے علاوہ جنوبی ایشیا میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں ’’صورت حال بدتر اور ابتری کی شکار رہی‘‘۔ گذشتہ سال دنیا بھر میں انسانی اسمگلنگ کے زمرے میں آنے والے جرائم میں 9000 سے زائد مقدمات درج ہوئے۔ لیکن، سزاؤں کے اعتبار سے کوئی خاص پیش رفت دکھائی نہیں دی۔ انسانی اسمگلنگ کے جرائم و زیادتی میں خواتین کی جسم فروشی جب کہ کم عمر بچوں سے بیگار کا کام لینے کی زیادتیاں شامل ہیں، جن کا شمار بڑھ رہا ہے۔
سالانہ رپورٹ کی رونمائی محکمہٴ خارجہ میں منعقدہ باضابطہ تقریب میں کی گئی؛ جس میں دنیا بھر کے سفارت کار، تجزیہ کار اور تعلیم و تدریس کے شعبہ جات سے متعلق شخصیات موجود تھیں۔
[سبز رنگ: وہ ملک جن کی حکومتیں متاثرین کے تحفظ کے خاطرخواہ انتظامات کرتی ہیں۔ پیلا رنگ: وہ ملک جو متاثرین کے تحفظ کی فراہمی میں کوتاہی کرتی ہیں۔ زرد رنگ: وہ ملک جہاں متاثرین کی تعداد نے تحاشہ ہے، اور اس میں اضافہ آتا جا رہا ہے۔ سرخ رنگ: وہ حکومتیں جو متاثرین کے لیے کوئی قابِل ذکر کام نہیں کرتیں]
اُنھوں نے کہا کہ فلپائن میں 2015ء کے مقابلے میں اس سال انسانی اسمگلنگ میں 80 فی صد کا اضافہ دیکھا گیا، جہاں 500 مقدمات درج ہوئے، جب کہ 272 گرفتاریاں عمل میں آئیں۔
رپورٹ جاری کرنے کے موقع پر ریکس ٹلرسن نے محکمہٴ خارجہ کی جانب سے ’جدید دور کی غلامی کے خاتمے‘ کے ایک منصوبے کا اعلان کیا، جس کے لیے 1.5 ارب ڈالر اکٹھے کیے جائیں گے، جس رقم کو انسانی اسمگلنگ سے متعلق مقدمات، تحفظ اور بچاؤ کے کام پر خرچ کیا جائے گا۔
اُنھوں نے کہا کہ دنیا بھر میں انسانی اسمگلنگ کے جرائم کا جال بچھا ہوا ہے، جس میں چھپے ہوئے کاروباری مفادات اور غیر ریاستی عناصر بھی ملوث ہیں، جو قومی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث معاملہ ہے۔
پاکستان کے حوالے سے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک انسانی اسمگلنگ کے خاتمے کے سلسلے میں مقرر کردہ کم ترین معیار پر پورا نہیں اترتا ہے۔ تاہم، اس ضمن میں پاکستان کی جانب سے بڑھ چڑھ کر تگ و دو کی جا رہی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زیر غور عرصے کے دوران، پاکستان حکومت کی جانب سے جسم فروشی کے زمرے میں چھان بین، مقدمات کے اندراج اور سزاؤں کے حوالے سے قابلِ ذکر کوششیں جاری ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچوں سے مشقت کا کام لینے کے حوالے سے، ’’صورتِ حال خوش کُن نہیں‘‘۔
پاکستان نے انسانی ٹریفکنگ کے ضمن میں ’قومی حکمت عملی کے طریقہٴ کار‘ میں درکار ترامیم منظور کی ہیں، تاکہ 2020ء کی اقوام متحدہ کے کنوینشن کی توثیق کے سلسلے میں پیش رفت کا حصول ممکن ہو۔
سندھ اور پنجاب کی حکومتوں نے بچوں سے جسمانی زیادتی اور مشقت کا کام لینے کے تدارک کے حوالے سے کام کیا ہے، تاکہ مجرمان کو سخت ترین سزائیں دی جا سکیں۔ اِسی طرح، نومبر، 2016ء میں بلوچستان نے بچوں کے تحفظ کے ضلعی دستے قائم کرنے کے لیے قانون سازی منظور کی جہاں متاثرین کی مدد کا کام کیا جاسکے گا۔
ادھر، صوبہٴ پنجاب میں زیادتی کی شکار خواتین کی بہبود کی پہلی پناہ گاہ قائم کی گئی ہے؛ جب کہ سندھ میں زیادتی کی شکار خواتین کی پناہ گاہوں کے لیے مختص رقوم میں اضافہ کیا گیا ہے۔
پنجاب نے رپورٹ دی ہے کہ پچھلے سال تقریباً 79000 بچوں کو اینٹوں کے بھٹوں سے چھڑایا گیا؛ جن میں سے کچھ ایسے بھی تھے جن سے بیگار و مشقت کا کام لیا جا رہا تھا۔ تاہم، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومت نے بچاؤ کے کام کوئی خاص دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔
مجموعی طور پر، مشقت سے نجات کے حوالے سے، قانون کے نفاذ سے وابستہ حکومتی ادارے غیر تسلی بخش نتائج برآمد کرتے ہیں۔
بیگار سے وابستہ زیادتیاں پاکستان کا اہم مسئلہ ہیں، جس ضمن میں صرف حکومت پنجاب نے بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔ لیکن، 2016ء کے دوران صرف 10 مجرمان کو سزائیں ہوئیں، جب کہ 2015ء میں محض سات کو سزا ہوئی تھیں۔