کراچی میں موٹر سائیکل کا استعمال عام ہی نہیں، عوامی ہے۔ شاید، یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد کارروائیوں میں بھی سب سے زیادہ استعمال موٹر سائیکلز کا ہوتا ہے۔
موٹر سائیکلیں رجسٹر کرنے والے صوبائی ادارے کے ریکارڈ کے مطابق پورے صوبے میں 50 لاکھ اور صرف کراچی میں 30 لاکھ موٹر سائیکلیں سڑکوں پر رواں دواں رہتی ہیں۔
جگہ کوئی بھی ہو، گلیاں کتنی ہی تنگ کیوں نہ ہوں، سڑکوں پر کتنا ہی ٹریفک جام ہو، شاہراہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں، راستے بند ہوں یا رکاوٹیں کھڑی ہوں، موٹر سائیکل ہر طرح سے، ہر مقام سے نکلنے کا ’جادو‘ جانتی ہے اور اسی لئےیہ ’عوامی سطح‘ کی ’پسندیدہ سواری‘ ہے۔
لیکن، ان سہولتوں کے درپردہ یہ تلخ حقیقت بھی پوشیدہ ہے کہ شہر بھر میں جتنے بھی اسٹریٹ کرائمز ہوتے ہیں، یا اب تک یہاں جتنے دہشت گردانہ واقعات ہوئے ان میں بڑے پیمانے پر موٹر سائیکلوں کا استعمال کیا گیا۔
گاڑیاں چھیننا، بینک لوٹنا، رہزنی، ڈکیتی، خواتین پر حملے، تیزاب گردی اور ان جیسے سینکڑوں جرائم حتیٰ کہ بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں بھی موٹر سائیکل کا استعمال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
وزارت داخلہ کے حکام جو نام ظاہر کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے ان کا کہنا ہے کہ شہر میں ہونے والے 95 فیصد اسٹریٹ کرائمز میں موٹر سائیکل کا استعمال ’لازمی سا‘ نظر آتا ہے۔ لہذا، دہشت گردی اور اسٹریٹ جرائم کا قلع قمع کرنے کے لئے صوبائی حکومت کاروں کی طرح ہر موٹر سائیکل پر ٹریکر نصب کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
اس کے لئے باقاعدہ قانون سازی کی جائے گی۔ لیکن، چونکہ یہ بہت بڑا اور اہم کام ہے، لہذا اسے شروع کرنے کے لئے بہت بڑے پیمانے پر مہم چلانے اور اس منصوبے کا تکنیکی و عملی جائزہ لینے کی بھی اشد ضرورت ہے۔
صوبائی وزارت داخلہ کے حکام کے مطابق سندھ کے وزیر داخلہ سہیل انور سیال نے حال ہی میں اس منصوبے پر تبادلہ خیال کی غرض سے موٹرسائیکل تیار کرنے والی کمپنیوں، سٹیزن پولیس لئیژان کمیٹی (سی پی ایل سی) اور وزارت داخلہ، محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن اور ٹرانسپورٹ کی وزارتوں کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کی تھی اور انہیں ہر موٹرسائیکل میں ٹریکر نصب کرنے کے حکومتی ارادے سے آگاہ کیا تھا۔ تاہم، بقول حکام، '’یہ ملاقاتیں زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوئیں۔‘'
انور سیال کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت، عدالت سے بھی اس منصوبے کو قانونی شکل دینے میں مدد لینے کے لئے رابطے کا ارادہ رکھتی ہے۔
حکام کا دعویٰ ہے کہ موٹر سائیکل تیار کرنے والے اداروں نے صوبائی حکومت کی خواہش پر ’لبیک‘ کہا ہے۔ تاہم، کچھ جانب سے اس پر اعتراض بھی آیا ہے۔
ایک افسر کا کہنا ہے کہ شہر کی لاکھوں موٹر سائیکلوں میں ٹریکر لگانے کے لئے باقاعدہ ایک مہم چلانی پڑے گی اور یہ کوئی آسان کام نہیں۔ پھر خریدار کی جیب سے ٹریکر کے لئے ایک اچھی خاصی رقم نکالنا بھی کم دشوار نہیں۔ ایسے میں اعتراض آنا اور منصوبے کو کامیاب بنانا ازخود ایک چیلنج ہوگا۔
کچھ لوگوں کے نزدیک ٹیکنیکل لحاظ سے بھی ٹریکر نصب کرنا ایک مشکل امر ہے۔ تیس لاکھ موٹر سائیکلیں کم نہیں ہوتیں اور راتوں رات اتنی بڑی تعداد میں موٹر سائیکلوں پر ٹریکر لگانا مشکل نہیں'’بہت مشکل‘'، بلکہ قریب قریب ناممکن ہے۔
پاکستان موٹر سائیکل ایسمبلرز ایسوسی ایشن کے صدر محمد صابر شیخ کا کہنا ہے کہ''کراچی میں چلنے والی25 لاکھ موٹر سائیکلیں کراچی میں رجسٹرڈ ہیں، جبکہ باقی دوسرے اضلاع کی ہیں۔ ان میں سے نوے فیصد ’سیونٹی سی سی‘ ہیں جن کی وائرنگ اور بیٹری دونوں کمزور ہوتی ہیں جو ٹریکر ڈیوائس کو سپورٹ نہیں کرے گی۔ حکومت کسی بھی قانون سازی سے پہلے اس نکتے کو بھی اپنے ذہن میں رکھے اور پھر قانون سازی کرے۔
روزنامہ ’ڈان‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ایک ڈیوائس کی کم از کم قیمت پانچ ہزار روپے ہے۔ اس کے علاوہ جس موٹر سائیکل میں ٹریکر نصب ہو اس کے مالک کے پاس اسمارٹ موبائل فون بھی ہونا ضروری ہے جبکہ اسے ٹریکر کی بنیادی معلومات ہونا بھی لازمی ہے۔ ہمارے یہاں سال میں متعدد دن موبائل فون سروس بند رہتی ہے ایسے میں ٹریکر بھی بند ہوجاتے ہیں۔ اس صورتحال میں کیا ہوگا؟ پھر زیادہ تر خریدار چین میں تیار ہونے والی نسبتاً سستی موٹر سائیکلیں خریدتے ہیں۔ اسمارٹ فونز کا استعمال نہایت کم اور ٹریکر کی معلومات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایسے میں خریداروں اور اسمبلرز کو بھی پہلے اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔
اکبر روڈ پر واقع موٹر سائیکلوں کی سب سے بڑی مارکیٹ کے ایک دکاندار کا کہنا ہے کہ ''حکومت لوگوں کو آج تک لازماً ہیلمٹ پہننے پر آمادہ نہیں کرسکی، ٹریکر مہم پر کہاں سے عمل ہوسکے گا''۔