کراچی میں خواتین پر پے در پے چاقو سے حملے کا خوف شہر کی سب سے بڑی یونیورسٹی جامعہ کراچی میں بھی پہنچ گیا ہے اور جامعہ کراچی کی انتظامیہ نے کیمپس کے اندر ہیلمٹ پہن کر موٹر سائیکل چلانے پر پابندی عائد کردی ہے کیونکہ میڈیا رپورٹس کے مطابق حملہ آور اپنی شناخت چھپانے کے لیے ہیلمٹ پہن کر وار کر رہا ہے۔
کراچی یونیورسٹی کیمپس کے سیکیورٹی ایڈوائزر کا کہنا ہے کہ یہ پابندی احتیاطی اقدام کے تحت لگائی گئی ہے۔ اور اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک ان واقعات میں ملوث ملزمان کا سراغ نہیں مل جاتا۔
یونیورسٹی انتظامیہ نے کلاسز شروع ہونے اور اختتام کے وقت پر جامعہ کے باہر بھی سیکیورٹی بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
جامعہ کراچی میں اس وقت 30 ہزار سے زائد طلبا زیر تعلیم ہیں جن میں اکثریت لڑکیوں کی ہے۔
سندھ میں بغیر ہیلمٹ موٹر سائیکل چلانا جرم ہے جس پر 150 روپے جرمانہ ہے۔ تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ یہ پابندی شہر میں جوں کی توں برقرار ہے لیکن جامعہ کے کیمپس کے اندر ٹریفک پولیس کا کوئی عمل دخل نہیں۔ سیکیورٹی اور ٹریفک پارکنگ کے لئے جامعہ کراچی کی اپنی سیکیورٹی ہے جو سندھ رینجرز کی مدد سے کیمپس کی نگرانی کرتی ہے۔
دوسری جانب کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں اب تک مختلف واقعات میں 12 سے زیادہ خواتین کو ایک نامعلوم شخص مختلف واقعات میں چھرے کے وار سے زخمی کرنے کے بعد کامیابی سے فرار ہو چکا ہے ۔
ابھی تک پولیس اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکی کہ آیا ان واقعات میں ایک ہی ملزم ملوث ہے یا کوئی گروہ کام کر رہا ہے؟
پولیس ابھی تک ملزمان تک پہنچنے میں اب تک ناکام رہی ہے۔
جس علاقے میں یہ حملے ہوئے ہیں، وہ جامعہ کراچی یونیورسٹی سے قریب ہے جس کے باعث جامعہ میں خواتین کے تحفظ پر بھی تشویش ظاہر کی جارہی ہے۔
ترجمان سندھ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم تک پہنچنے کے لئے سی سی ٹی وی فوٹیج سے مدد حاصل کی جارہی ہے۔ جبکہ اس بارے میں شہریوں سے مدد کی بھی اپیل کی گئی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مدد کرنے والے شہری کو 5 لاکھ روپے انعام دیا جائے گا۔
کراچی پولیس نے علاقے کی کڑی نگرانی کے دوران اب تک کم از کم 10 افراد کو حراست میں لے کر پوچھ گچھ کی ہے لیکن فی الحال پولیس کو کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
متاثرہ خواتین کے مطابق ان واقعات میں موٹر سائیکل پر سوار اکیلا شخص سڑک پر چلتی خواتین کو چاقو سے زخمی کرتا ہے اور پھر بغیر کسی چھینا جھپٹی کے رفو چکر ہو جاتا ہے۔
پولیس نے اب تک کے واقعات میں زخمی ہونے والی خواتین کے بیانات ریکارڈ کرکے آٹھ مقدمات درج کیے ہیں۔ مقدمات میں اقدام قتل کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔
دوسری جانب ان مسلسل واقعات نے جہاں پولیس کو پریشان کر رکھا ہے وہیں شہری بالخصوص خواتین میں بھی خوف کا شکار ہیں۔ اور علاقے میں خواتین اکیلے باہر نکلنے سے کترا رہی ہیں۔
مختلف سیاسی تنظیموں اور سول سوسائٹی کی جانب سے خواتین پر چاقو سے حملے کے خلاف احتجاجي مظاہرے بھی کئے گئے ہیں جن میں حکومت سے ان واقعات میں ملوث ملزمان کی فوری گرفتاری اور خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
سندھ میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ان واقعات کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی جماعت معصوم خواتین پر حملوں کے واقعات کو برداشت نہیں کرے گی۔ دہشت گرد خواتین پر حملے کرکے ہماری قوم کو للکار رہے ہیں۔
بعض پولیس افسران نے شروع میں اس واقعے کو ملزم کا نفسیاتی مسئلہ قرار دیا تھا لیکن نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملزم کو گرفتار اور تفتیش کئے بغیر ایسا کہنے سے اس کا فائدہ ملزم کو پہنچ سکتا ہے۔ تفتیش اور تحقیق کے بغیر اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے اور ابھی تک ملزم کا مقصد، خوف پھیلانے کے علاوہ واضح نہیں ہو رہا۔