رسائی کے لنکس

امریکی حریفوں کے سامنے 'ٹک ٹاک' کب تک ٹکے گی؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

نوجوان نسل کو ٹک ٹاک نے دیوانہ بنا رکھا ہے اور اس بات نے سلیکون ویلی کے کرتا دھرتا افراد کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

ٹک ٹاک ایک سوشل نیٹ ورک ہے جو لوگوں کو مختصر ویڈیوز بنانے، ایڈٹ کرنے اور دنیا بھر میں پھیلانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ صرف کاروباری مسابقت کا معاملہ نہیں۔ امریکی اس لیے بھی پریشان ہیں کہ ٹک ٹاک چینی کمپنی بائٹ ڈانس کی ملکیت ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ سیلی کون ویلی کے میدان میں کسی چینی کمپنی نے ایسی کامیابی حاصل کی ہے۔

ریسرچ فرم سینسر ٹاور کے مطابق گزشتہ ایک سال میں ٹک ٹاک کو 75 کروڑ بار ڈاؤن لوڈ کیا گیا ہے۔ اس کے مقابلے میں فیس بک کو ساڑھے 71 کروڑ، انسٹاگرام کو 45 کروڑ، یوٹیوب کو 30 کروڑ اور اسنیپ چیٹ کو ساڑھے 27 کروڑ بار ڈاؤن لوڈ کیا گیا ہے۔

امریکا کی انٹرنیٹ کمپنیاں ٹک ٹاک کا مقابلہ کرنے کے لیے کئی متبادل پیش کر چکی ہیں لیکن فی الحال انھیں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی۔ گزشتہ سال فیس بک نے ایک ایپلی کیشن لاسو لانچ کی۔ اسے پانچ لاکھ سے بھی کم لوگوں نے استعمال کیا۔ ان میں بیشتر کا تعلق میکسیکو سے تھا۔

فیس بک اپنے فیچر سٹوریز پر بھی محنت کر رہی ہے اور اسے انسٹاگرام کا مرکزی حصہ بنا نا چاہتی ہے۔ ہانگ کانگ کے ایک ماہر جین مینچن کا کہنا ہے کہ انسٹاگرام ٹک ٹاک کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک نیا فیچر ’کلپس‘ کے نام سے جانچ رہی ہے۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق یوٹیوب منصوبہ بنا رہی ہے کہ ٹک ٹاک جیسا آسان سافٹ ویئر فراہم کرے تاکہ نوجوان اس میں دلچسپی لیں۔ اس کی پیرنٹ کمپنی گوگل فائر ورکس کو خریدنے کا ارادہ کر رہی ہے جو ٹک ٹاک جیسا سوشل نیٹ ورک ہے۔

ٹک ٹاک امریکی کمپنیوں کی سخت حریف ثابت ہو رہی ہے جس کی وجہ سے امریکی انتظامیہ اس کی جانب متوجہ ہو گئی ہے۔ امریکہ کی بیرونی سرمایہ کاری پر نظر رکھنے والی کمیٹی ان دنوں اس معاہدے کا جائزہ لے رہی ہے جس کے تحت دو سال قبل بائٹ ڈانس نے امریکی کمپنی میوزیکل ڈوٹ لی کا سودا کیا۔ یہی وہ کمپنی ہے جو بعد میں ٹک ٹاک بنی۔ گزشتہ ماہ ارکان کانگریس نے اس کا جائزہ لینے کا مطالبہ کیا تھا۔

گزشتہ ماہ فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے واشنگٹن کی ایک یونیورسٹی میں طلبہ سے گفتگو کرتے ہوئے چین پر تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ فیس بک امریکی کمپنی ہے جو اظہار رائے کو فروغ دیتی ہے۔ ٹک ٹاک پر ہانگ کانگ کے مظاہروں کی کوریج نہیں تھی کیونکہ وہ چین کا بیانیہ آگے بڑھا رہی ہے۔ انھوں نے سوال اٹھایا کہ کیا ہم ایسا انٹرنیٹ چاہتے ہیں؟

بائٹ ڈانس کے ترجمان نے زکربرگ کے الزام کی تردید کی اور کہا کہ چینی حکومت نے مواد سنسر کرنے کے لیے نہیں کہا۔ ٹک ٹاک کی پالیسیاں امریکہ میں موجود قائدین بناتے ہیں اور کسی حکومت کے زیر اثر نہیں۔

مارک زکربرگ کا ایک اور بیان بھی میڈیا میں آیا جس میں انھوں نے کہا کہ ٹک ٹاک استعمال کرنے والے دیر تک ٹک نہیں پاتے اور جلد اس سے بور ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے ٹک ٹاک کو تشہیر پر بھاری رقم خرچ کرنا پڑ رہی ہے۔ اگر وہ تشہیر پر صرف کی جانے والی رقم روک دے تو حقیقی صارفین کی تعداد کم رہ جائے گی۔

ماہرین کہتے ہیں کہ ممکن ہے، زکربرگ درست کہہ رہے ہوں۔ لیکن فی الوقت ٹک ٹاک نے انھیں پریشان کر رکھا ہے اور مستقبل قریب میں یہ کشمکش تیز ہوتی نظر آ رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG