رسائی کے لنکس

سری نگر میں تبتی مسلمانوں کی منفرد کمیونٹی


 سری نگر کے تبت پبلک اسکول میں بچی کھیل رہی ہے ۔فوٹو اقبال حسین/وی او اے
سری نگر کے تبت پبلک اسکول میں بچی کھیل رہی ہے ۔فوٹو اقبال حسین/وی او اے

تبتی مسلمانوں کی ایک انوکھی کمیونٹی بھارتی کنٹرول کے کشمیر کے دار الحکومت سری نگر میں پروان چڑھ رہی ہے۔ بھارتی ریاست ھماچل پردیش کا شہر دھرم شالہ وہ علاقہ ہے جہاں ساٹھ سال قبل تبت سے بھارت فرار ہو کر آنے والے بود ھ عقیدے کے بیشتر پناہ گزین رہ چکے ہیں ۔ لیکن اس سے ذرا ہی فاصلے پر واقع بھارتی کنٹرول والے کشمیر کے دار الحکومت سری نگر میں اس وقت تبتی مسلمانوں کی ایک انوکھی کمیونٹی کی منفرد تبتی مسلم ثقافت اور روایات مقامی کشمیریوں کو اپنی جانب مبذول کر رہی ہیں ۔

سری نگر میں اس وقت لگ بھگ 1500 تبتی مسلمانوں پر مشتمل کی ایک ایسی کمیونٹی آباد ہے جس نے اپنی دوسری ثقافتی روایات کو بر قرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے روائتی تبتی کھانوں کے ریسٹورنٹس بھی کھول لیے ہیں جن سے لطف اندوز ہونے کےلیے ان کے کشمیر ی پڑوسی بڑی تعداد میں وہاں آرہے۔

سری نگر کی بلیوارڈ روڈ پر واقع لہاسہ ریسٹورنٹ کے مینیجر ، احمد کمال ظریف نے وی او اے کو بتایا کہ ہمارے بیشتر گاہگ کشمیری ہیں اور نوجوان کشمیری خاص طور پر تبتی کھانے پسند کر رہے ہیں ۔

اس نے بتایا کہ اس کے والد نے یہ ریسٹورنٹ 1976 میں کھولا تھا اور ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ یہاں اپنی تبتی روایات کو کسی انداز میں بر قرار رکھیں اور اب وہ اپنے والد کے اس روائتی ریسٹورنٹ کو مینیجر کے طور پر چلا رہے ہیں۔

لہاسہ ریسٹورنٹ کے کچن کا ایک منظر، فائل فوٹو
لہاسہ ریسٹورنٹ کے کچن کا ایک منظر، فائل فوٹو

سری نگر میں تبتی پبلک اسکول کے ایک سابق پرنسپل امان اللہ ملک نے بتایا کہ صدیوں پہلے تبتی کمیونٹی کے آباو اجداد کشمیر سے جنوبی چین کے خود اختیار علاقے لہاسہ آباد ہو گئے تھے جہاں انہوں نے تبتی خواتین سے شادیاں کیں ،تبتی زبان سیکھی اور اپنی ایک منفرد کمیونٹی تشکیل دی ۔ وہ پوری آزادی سے وہاں اپنے مذہب پر عمل پیرا رہے ۔ انہوں نے وہاں مساجد بنائیں اور کسی رکاوٹ کے بغیر کاروبار کئے ۔پھر 1959 میں بیجنگ میں ایک ناکام بغاوت کے بعد جب چینی فوجیوں نے لہاسہ پر قبضہ کر لیا تو وہ فرار ہو کر بھارتی کنٹرول کے کشمیر میں آگئے تھے ۔

کشمیر پہنچنے کے بعد نئے آنے والے بیشتر تبتی سری نگر میں 18 ویں صدی کے ایک قلعے ہاری پربت فورٹ کے قریب آباد ہو گئے تھے اور اس وقت اس جگہ تبتی ریستورانوں اور تبتی ثقافت کے رنگ جا بجا بکھرے دکھائی دیتے ہیں ۔ ان میں کشیدہ کاری کی دکانیں شامل ہیں جیسی کہ محمد یوسف دالبا نے کھول رکھی ہے ۔ وی او سے بات کرتے ہوئے یوسف نے بتایا کہ اسے خواتین کے لئے اہم تقریبات میں پہننے کے لئے ایک روائتی لباس پر سنہری اور سفید تلے سے کشیدہ کاری کا کام مکمل کرنے میں تین دن لگتے ہیں ۔

سری نگر کی تبت کالونی میں کشیدہ کاری کی ایک دکان کا منظر ، فائل فوٹو
سری نگر کی تبت کالونی میں کشیدہ کاری کی ایک دکان کا منظر ، فائل فوٹو

اگرچہ تبتی اور کشمیری کمیونٹیز کے درمیان شادیاں زیادہ عام نہیں ہیں تاہم کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے جیسا کہ نگہت قاضی نے بتایا کہ انہوں نے تیس بتیس سال کی عمر میں ایک تبتی شخص سے شادی کی تھی اور اس وقت ان کے تین بچے ہیں ۔

انہوں نے بتایا کہ 2001 میں جب انہوں نے اپنی برادری سے باہر شادی کی تو انہیں اپنے خاندان کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان کا کہنا تھا کہ اب میرا خاندان اور میرا پورا قبیلہ خوش ہے اور میرے فیصلے کی تعریف کرتے ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ برادریوں کے درمیان شادی بیاہ کے سلسلے میں اضافہ ہونا چاہئے۔

نئی تبتی نسل نے اپنے آبائی سر زمین واپسی کی امیدیں ختم کر دی ہیں جو اب چین کے کنٹرول میں ہے ۔ناامیدی کا یہ احساس ان کے طرز زندگی سے جھلکتا ہے جس میں اب وہ کشمیری لوگوں کی زبان اور کشمیری روایات کو زیادہ سے زیادہ اپنا رہے ہیں۔

تبتی پبلک اسکول میں ، جہاں دلائی لامہ نے 2012 میں ایک تقریر کی تھی ، بیشتر طالبعلم مقامی کشمیری ہیں ۔ ساتویں گریڈ کی تبتی طالبہ ٹرامبو نے وی او اے کوبتایا کہ اسے کورین مارشل آرٹ ٹائی کو انڈو پسند ہے لیکن اس کے والدین اسے ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں ۔ اس نے بتایا کہ اس کی بہت سی سہیلیاں کشمیری ہیں اور وہ ان کے ساتھ بہت خوش رہتی ہے۔

سری نگر کے تبت پبلک اسکول میں بچیاں کھیل رہی ہیں ۔ فوٹو اقبال حسین/ وی او اے
سری نگر کے تبت پبلک اسکول میں بچیاں کھیل رہی ہیں ۔ فوٹو اقبال حسین/ وی او اے

تبت پبلک اسکول کے سابق پرنسپل امان اللہ ملک نے تسلیم کیا کہ ہم ہمیشہ کشمیر میں رہیں گے ، اور یہ ہی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آپ صرف نئی نسل کو ہی دیکھ لیں وہ نہیں جانتے کہ انہیں یہاں سے کہیں اور بھیجا جائے گا۔ وہ تبتی ثقافت کو تو ساتھ رکھتے ہیں ، تاہم ان کا رویہ ، ان کی زبان اور ان کی ترجیحات نمایاں طور پر کشمیری ہی ہیں۔

ظریف نے بتایا کہ بہر طور تبتیوں نے اپنی قومی زبان کو برقرار رکھا ہے ۔ ہم گھر میں اپنی زبان بولتے ہیں ، اور یہ تبتی زبان کی سب سے عمدہ مقامی زبان ہے ۔

اگرچہ تبتی باشندے ساٹھ سال سے زیادہ عرصےسے کشمیر میں رہ رہے ہیں، تاہم انہیں بھارت کی شہریت اور یہاں مستقل رہنے کا حق صرف اس کے بعد حاصل ہوا جب بھارت کی وفاقی حکومت نے 2019 میں خطے کی نیم خود اختیار حیثیت کو منسوخ کر دیا ۔

اس فیصلے سے خطے میں بہت سے لوگ مشتعل ہوئے جس کےنتیجے میں سیکیورٹی فورسز نے سخت پکڑ دھکڑ کی اور عسکریت پسندوں نے کچھ غیر مقامی کمیونٹیز پر حملے کیے لیکن تبتیوں کو نقصان پہنچانے یا پریشان کرنے کی کوئی رپورٹ نہیں ملی۔

ظریف نے بتایا کہ ہم جب سے کشمیر میں ہیں ہمیں کبھی ہراساں نہیں کیا گیا ۔ کشمیری بہت اچھے میزبان ہیں اورانہوں نے ہمارے ساتھ بہت اچھا برتاو کیا ہے ۔

وی او اے نیوز

XS
SM
MD
LG