رسائی کے لنکس

بھارت کھربوں روپوں کی لاگت سے کشمیر میں ٹنلز اور ریلوے لنک کیوں بنا رہا ہے؟


بھارت اپنے زیرِ انتطام کشمیر میں 25 لاکھ کروڑ روپوں کی لاگت سے 19 سرنگوں سمیت دیگر منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔
بھارت اپنے زیرِ انتطام کشمیر میں 25 لاکھ کروڑ روپوں کی لاگت سے 19 سرنگوں سمیت دیگر منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔

بھارت نے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کو سڑک اور ریل کے ذریعے ملانے کے مختلف منصوبوں پر کام تیز کر دیا ہے۔ ان منصوبوں کے تحت 25 لاکھ کروڑ روپوں کی لاگت سے 19 سرنگیں تعمیر کی جائیں گی۔

کشمیر کو ریل لنک کے ذریعے بھارت سے ملانے کے لیے 37 ہزار کروڑ روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ زیرِ تعمیر ٹنلز میں سے سطح سمندر سے ساڑھے 11 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع زوجیلا پہاڑی درے سے گزرنے والی 14 کلو میٹر طویل سرنگ بھی شامل ہے جو چھ ہزار 800 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کی جا رہی ہے۔

یہ ٹنل فوجی لحاظ سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیوں کہ یہ لداخ خطے میں واقع ہے جس کی طویل سرحد چین سے ملتی ہے جہاں حالیہ برسوں میں دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان محاذ آرائی بھی ہوئی تھی۔ یہ سرنگ وادیٔ کشمیر اور بھارت کے درمیان سڑک رابطے کو آسان بنا دے گی۔

زوجیلا ٹنل اہم کیوں ہے؟

سرینگر ۔لداخ شاہراہ موسمِ سرما کے دوراں زوجیلا اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں ہونے والی بھاری برف باری کے نتیجے میں کئی ماہ تک بند رہتی ہے۔ لیکن اس ٹنل کی تکمیل کے بعد کشمیر اور لداخ خطے کے ضلع کارگل کے دراس علاقے کے درمیان سڑک رابطہ سال کے ہر موسم میں ممکن بن جائے گا ۔

اس پہاڑی درےسے سفر کا وقت جو اس وقت تین گھنٹے ہے گھٹ کر صرف 20 منٹ رہ جائے گا۔

یہ ٹنل ایشیا کی سب سے لمبی روڈ ٹنل ہو گی اور اس کی فوجی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے بھارت کے وزیر ٹرانسپورٹ نتن گڈکری نے بتایا کہ "یہ ٹنل دونوں خطوں (لداخ اور جموں و کشمیر) کی ترقی، سیاحت کے فروغ، مقامی مال برداری کی آزاد نقل و حمل اور ہنگامی حالات میں مسلح افواج کی بہتر نقل و حرکت کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔"

سیاحوں کی آمد میں چار گنا اضافے کی توقع

سرینگر میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے وزیرِ ٹرانسپورٹ نے کہا کہ زوجیلا درے پر بننے والی ٹنل اور کشمیر کے گرمائی صدر مقام سرینگر اور سرمائی صدر مقام جموں کو ملانےوالی شاہراہ کی تعمیر سے خطے میں سیاحوں کی آمد بڑھے گی اور روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ "ہم وزیرِ اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ایک ایسے مشن پر گامزن ہیں جس کا مقصد اگلے تین یا چار برس میں جموں و کشمیر میں سڑک رابطے کو امریکہ کی سڑکوں کے معیار پر لانا ہے۔"

'سرحدی علاقوں تک مسلح افواج کی رسائی آسان بن جائے گی'

تجزیہ کار ڈاکٹر ارون کمار کہتے ہیں کہ " جموں سے سرینگر اور سرینگر سے کارگل کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے کے لیے خطیر رقوم خرچ کرنے سے مقامی آبادی کو تو فائدہ ہو گا، اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی سرحدی تنازع کی صورت میں فوج کی سرحدی علاقوں تک رسائی بھی آسان ہو جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ امن کے زمانے میں بھی بہتر رابطہ سڑک عام لوگوں کے ساتھ ساتھ مسلح افواج کے لیے ان دور دراز سرحدی علاقوں تک رسائی آسان بنا دیتی ہے اور یہ ان کے لیے ہر لحاظ سے اہم ہے۔

خیال رہے کہ لداخ، تبت سرحد پر بھارت اور چین کی افواج کے درمیان 2020 اور 2021 کے دوران جھڑپوں کے بعد فی الحال وہاں امن ہے۔ لیکن دونوں افواج نے لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر اپنی فوجی سرگرمیاں بڑھا دی ہیں۔

زوجیلا ٹنل کارگل کے علاقے کو وادی کشمیر اور باقی ماندہ بھارت کو زیادہ قریب کر دے گی۔


'کشمیر کو کنیا کماری سے ملانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہورہا ہے'

بھارتی وزیر گڈکری نے بتایا کہ"ان ٹنلز کی تعمیر اور سڑکوں کی اپ گریڈنگ کے بعد کشمیر کو کنیا کماری (بھارتی جنوبی ریاست تمل ناڈو کے انتہائی جنوب میں واقع ساحلی علاقہ) کے ساتھ ملانے کا خواب صحیح معنوں میں پورا ہوگا۔"

ٹنلز کی تعمیر سے جموں اور سرینگر کے درمیان سڑک کا فاصلہ 294 کلومیٹر سے گھٹ کر 248 کلو میٹر رہ گیا ہے جس میں مزید 70 تا 80 کلومیٹر کمی آ جائےگی ۔ وزیرِ ٹرانسپورٹ کے مطابق تمام ٹنلز میں آمد و رفت شروع ہونے کے بعد دونوں تاریخی شہروں کے درمیان سفر کو دس گھنٹے سے کم کر کے تین سے ساڑھے تین گھنٹے میں طے کیا جاسکے گا۔

یہ شاہراہ بارشوں اور برف باری کے موسم میں کئی کئی روز تک بند رہتی ہے لیکن ٹنلز کی تعمیر سے یہ پریشانی بھی دور ہوجائے گی اور شاہراہ بند رہنے سے وادیٔ کشمیر میں غذائی اجناس اور ایندھن کی جو قلت پیدا ہوجاتی ہے اس پر بھی قابو پانے میں مدد ملے گی۔

بھارتی وزیر نے منگل کو اپنے دورے کے دوران کہا کہ "ملک میں 32گرین ایکسپریس ویز تعمیر کی جارہی ہیں اور ان میں سب سے اہم دہلی۔امرتسر۔کٹرہ ایکسپریس وے ہے جس کی کل لمبائی 670 کلومیٹر ہے اور یہ 37 ہزار524کروڑ روپے کی لاگت سے دسمبر 2023 میں مکمل ہوجائے گی۔


'نئی دہلی اور وادیٔ کشمیر کے درمیان فاصلے کم ہوں گے'

انہوں نے کہا کہ اس ا یکسپریس وے کی تعمیر مکمل ہونےپر دہلی- امرتسر، دہلی- کٹرہ اور دہلی -سرینگر کے درمیان سفر بالترتیب چار، چھ اور آٹھ گھنٹے میں طے کیا جاسکے گا۔

انہوں نے جموں خطے کو سرحدی اضلاع پونچھ اور راجوری کے ذریعے وادیٔ کشمیر سے ملانے والی متبادل رابطہ سڑک مغل روڑ کو بھی اپ گریڈ کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اس سڑک پر پیر کی گلی کے مقام پر پانچ ہزار کروڑ روپے کی لاگت سے ایک ٹنل تعمیر کی جائے گی۔

دنیا کا سب سے اونچا ریل پُل

بھارت وادیٔ کشمیر کو ملک کے دوسرے حصوں کے ساتھ ریل کے ذریعے ملانے کے لیے جس جامع منصوبے پر عمل درآمد کررہا ہے اس پر دریائے چناب پر تعمیر کیا جانے والا دنیا کا سب سے اونچا ریل پُل بھی شامل ہے۔272 کلومیٹر لمبے ریلوے ٹریک پر بننے والا یہ پل اس آبی گزر گاہ سے 1178فٹ کی اونچائی پر واقع ہے اور تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔

اس ریلوے ٹریک کی تکمیل کے بعد وادیٔ کشمیر کا سرحدی شہر بارہ مولہ جموں کے شہر ادھمپور کے ساتھ ریل کے ذریعے مل جائے گا۔

بھارت کے وزیر ریلوے اشونی ویشنو نے گزشتہ ماہ بارہ مولہ کے اپنے دورے کے موقع پر اعلان کیا تھا کہ یہ شہر باقی ملک (بھارت) کے ساتھ اس سال کے آخر میں ریل کے ذریعے مل جائے گا اور اس روٹ پر اگلے برس سب سے تیز رفتار جدید ریل گاڑیاں 'وندے بھارت' چلائی جائیں گی۔

انہوں نے کہا تھا کہ اگلا منصوبہ ریل کی پٹڑی کو ایک اور سرحدی شہر کپواڑہ تک لے جانا ہے۔ کپواڑہ شہر متنازع کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول سے صرف 37 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جب کہ حد بندی لائن کا اوڑی۔چکوٹھی راہداری پوائنٹ بارہ مولہ شہر سے تقریباً 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔


ماہرینِ ماحولیات کو تشویش

بعض ماحولیاتی ماہرین نے جموں وکشمیر میں سڑکوں ، ٹنلز اور ریلوے لائنز بچھانے کے ان وسیع منصوبوں کے نتیجے میں ماحولیات کو پہنچنے والے نقصان پر تشویش اور تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

اس سلسلے میں صحافیوں کے استفسار پر گڑکری نے کہا کہ ماحولیات پر کم سے کم منفی اثر پڑے اس کے لیے ماہرین کی آرا اور سفارشات پر حتی الامکان عمل کیا جا رہا ہے۔

عہدیداروں نے بتایاہے کہ اس سلسلے میں بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی ہدایات کو بھی ملحوظ ِ خاطر رکھا جارہا ہے۔تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ "کچھ پانے کے لیے کچھ ضرور کھونا پڑتا ہے ۔"

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG