معروف ویڈیو شیئرنگ ایپ 'ٹک ٹاک' نے کہا ہے کہ کمیونٹی گائیڈ لائنز کی خلاف ورزی پر پاکستان میں قابل اعتراض مواد ہٹانے کے علاوہ ہزاروں اکاؤنٹس کو معطل اور بند کر دیا گیا ہے۔
جمعے کو جاری کیے گئے ایک بیان میں ٹک ٹاک انتظامیہ کا کہنا تھا کہ پاکستان ان پانچ بڑے صارف ممالک میں شامل ہے جہاں ٹرمز آف سروس یا کمیونٹی گائیڈ لائنز کی خلاف ورزی کے باعث ٹک ٹاک پر موجود ویڈیوز کو بڑی تعداد میں ہٹایا گیا ہے۔
ٹک ٹاک کی جانب سے پاکستانی صارفین کی سہولت کے لیے اُردو میں بھی ہدایت نامہ جاری کیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ 'ٹک ٹاک' میں رپورٹنگ فیچر بھی موجود ہے جس کے ذریعے ٹک ٹاک استعمال کرنے والے نامناسب مواد یا اکاؤنٹ کے بارے میں شکایت کرسکتے ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان میں ٹیلی مواصلات کے نگران ادارے پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے غیراخلاقی مواد نہ ہٹانے پر 'ٹک ٹاک' کو آخری وارننگ جاری کی تھی۔
ٹک ٹاک انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ سال جولائی سے دسمبر تک پاکستان میں صارفین کی جانب سے اپ لوڈ کی گئیں 37 لاکھ 28 ہزار 162 نامناسب ویڈیوز کو نشر ہونے سے روکا گیا۔
پی ٹی اے کا کہنا تھا کہ ٹک ٹاک پر فحش و غیراخلاقی مواد پر معاشرے کے مختلف طبقات کی جانب سے متعدد شکایات موصول ہوئیں تھیں کہ اس کے نوجوان نسل پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ٹک ٹاک کا کہنا ہے کہ اس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایپ استعمال کرنے والوں کو محفوظ پلیٹ فارم مہیا کرے۔
ٹک ٹاک کو کچھ ممالک میں مختلف وجوہات کی بنا پر پابندی کا سامنا ہے۔ بھارت میں پابندی کے بعد گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹک ٹاک کی مالک کمپنی 'بائٹ ڈانس' کے ساتھ کسی بھی قسم کی لین دین کو ممنوع قرار دیا ہے۔
'حکومت سنسر شپ کی صلاحیت بڑھا رہی ہے'
پاکستان میں ڈیجیٹل رائٹس کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پی ٹی اے کی جانب سے موبائل ایپلکیشن اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر قدغنیں لگانا شہری آزادیوں کے خلاف ہے۔
ڈیجیٹل رائٹس کے لیے سرگرم نگہت داد کہتی ہیں کہ ٹک ٹاک نے نئی گائیڈ لائن خاص طور پر پاکستان کے اعتراضات کو دیکھتے ہوئے نہیں بنائیں بلکہ ان کا محض اردو میں ترجمہ کیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹک ٹاک کی پالیسی میں مقامی قوانیں کا احترام شامل ہے اور ادارے کی ٹرانسپیرنسی رپورٹ کے مطابق جن ممالک کی درخواست پر سب سے زیادہ ویڈیوز ہٹائیں ان میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔
نگہت داد کہتی ہیں کہ یہ ٹک ٹاک کے لیے ایک چیلنج ہوگا کہ وہ حکومتوں کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں یا اپنی پالیسی کے مطابق اظہار رائے اور فن پر قدغن نہیں لگنے دیتے۔
ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنی والی تنظیم 'بولو بھی' کے ڈائریکٹر اسامہ خلجی کہتے ہیں کہ ٹک ٹاک کی کمیونٹی گائیڈ لائن پہلے سے موجود تھیں جس میں صارفین کو شکایت کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کو یہ اختیار نہیں کہ وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اپنی بات منوانے پر مجبور کرے۔
اسامہ خلجی کہتے ہیں کہ ریاست چاہتی ہے کہ تنقیدی مواد کو روکا جائے اور سیاسی آوازوں کو سنسر کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت قومی ذرائع ابلاغ کے بعد سوشل میڈیا پر اپنی سنسر شپ کی صلاحیت کو بڑھا رہی ہے جو مناسب نہیں ہے۔
پاکستان کی حکومت کا یہ موقف رہا ہے کہ وہ ملک میں آزادی اظہار رائے پر قدغن نہیں لگا رہی بلکہ غلط اور گمراہ کن خبروں کا راستہ روکنے کے لیے ضروری اقدامات کر رہی ہے۔
ٹک ٹاک ایک معروف چینی سوشل نیٹ ورکنگ ایپلی کیشن ہے جو صارفین کو ویڈیو کلپس بنانے، گانوں پر لپ سنک کرنے اور چھوٹی ویڈیوز بنانے کی اجازت دیتی ہے۔